کام بہت ہیں ان کو پَر نپٹاۓ کون
خود کر لوں گا اس کے در پر جائے کون
رشتوں کو کشمیر بنا کر رکھا ہے
مقصد جب الجھانا ہے سلجھائے کون
خود کو سورج وہ سمجھتا ہے سمجھنے دیجے
اپنی اوقات میں آ جائے گا ڈھلنے دیجے
یہ قیادت یہ سیاست یہ حکومت کا بار
آپ کے بس کا نہیں آپ تو رہنے دیجے
تو زمیں اب آسمانی رنگ میں
ہے تباہی آئینے میں منہ تو دیکھ
اک فقیری اس سے کیا نسبت تری
رعب شاہی آئینے میں منہ تو دیکھ
میرے سرکار اِس خمار میں ہیں
میکدے میں ہیں جو بَہار میں ہیں
اور فی الحال قتل گاہ میں ہم
اپنی باری کے انتظار میں ہیں
تو اگر چاہے تو بس ایک اشارہ کر دے
ایک ذرے کو اٹھائے تو ستارہ کر دے
اب تو ساحل پہ ہے قزاق اجل کا خطرہ
ہم کو موجوں کے حوالے ہی دوبارہ کر دے
آسماں گر وہ بنا ہے تو اسے یاد رہے
فخر یہ اس کو زمیں والے عطا کرتے ہیں
مطلبی آنکھیں تو مقصد کے لئے روتی ہیں
قیمتی آنسو ندامت سے بہا کرتے ہیں
اپنی زمیں کی جن کو کوئی فکر ہی نہیں
کس منہ سے وہ امید رکھیں آسمان سے
کہتا ہے باغبان تو میں اس چمن کا ہوں
لیکن سوال کچھ نہ کرو باغبان سے
حسن اگر خفا ہوا منا لیا تو کیا ہوا
انا کا سر جو عشق نے جھکا لیا تو کیا ہوا
جو ہر طرف ہیں رونقیں ہی رونقیں جہان میں
سو بے خودی میں جی ذرا لگا لیا تو کیا ہوا
سفنہ شہر کا گرداب میں ہے
امیر شہر لیکن خواب میں ہے
اسی نے کر دیا ہے پانی گدلا
وہ مچھلی ایک جو تالاب میں ہے
دلیلوں سے مری وہ مطمئن تھا
سنی جائے گی میری میرا ظن تھا
مگر یہ فیصلہ اچھا ہے ان کا
کہ حل اس کے سوا اتنا کٹھن تھا
تھے غم و افلاس سے مجبور ہاتھ
میں نے ہاتھوں میں کتابیں ڈال دیں
اِن کتابوں سے افق روشن ہوئے
اس نے تاروں پر کمندیں ڈال دیں
پشیماں ہو خطاؤں پر میں اپنی
غنیمت ہے ابھی انسان ہوں میں
میں تنکا ہی سہی سیلِ رواں کا
ضروت آ پڑے امکان ہوں میں
ملا ہے جو اسے قدرت کا فیصلہ سمجھو
اگر وہ چاہے تو ہر کام بس ہُوا سمجھو
چلا ہوں جانب منزل جنون سر پہ لئے
مجھے اکیلا نہیں مجھ کو قافلہ سمجھو
صحرا میں تگ و دَو کے سوا کچھ نہ ملے گا
ڈھونڈو گے اگر نام و پتا کچھ نہ ملے گا
لکھ رکھا ہے جو زیست کو ریتیلی زمیں پر
چل جائے جو بد مست ہوا کچھ نہ ملے گا
خوشی کے لمحے گذر بھی جاتے ہیں خواب جیسے
جو ایک لمحہ بھی دکھ میں گذرے عذاب جیسے
ہے ان کی آمد سے بزم یاراں میں رقص جاری
چمن کی رت کو بدل دیں کِھلتے گلاب جیسے
رشتوں کو کشمیر بنا کر رکھا ہے
مقصد جب الجھانا ہے سلجھائے کون
یہ فیصلہ ہے تو یہ بھی نظر میں رکھا جائے
مری خطا کو حدودِ بشر میں رکھا جائے
اور کتنے ہیں جہاں حد نظر کے آگے
اک سفر اور ہے ہر ایک سفر کے آگے
سنتے سنتے تھک گیا تو بولتا ہے
اور بولو گے زبانیں کاٹ لوں گا
کردار یہ کہانی سے جاتے رہے مگر
اک شخص کیا گیا ہے کہ منظر اداس ہے
انکساری میں نہ جھکنا کبھی اتنا راشد
خلق عالم نہ کہیں خود کو خدا کہنے لگے
مجھے گرا تے ہو چلنے کی بات کرتے ہو
نشے میں تم ہو سنبھلنے کی بات کرتے ہو
بلائیں لوٹ جاتی ہیں جو مجھ سے
مری ماں کی دعاؤں کا اثر ہے
حوصلہ دیکھیں گے تیرا نئے انداز کے ساتھ
ہم بھی طوفاں کے مقابل ہیں اک آواز کے ساتھ
خون نا حق کے اثر اور دعا سے نکلی
اک وبا ظلم و جفا اور انا سے نکلی
دنیا مردہ پرست ہے شاید
لوگ مرنے پہ یاد کرتے ہیں
دیمک زدہ بدن میں ہیں خوابیدہ حوصلے
بوسیدہ کوئی جیسے کہ دیوار گر پڑے
اب تو آنے کی خبر کوئی سناتا ہی نہیں
لوگ ہر روز سناتے ہیں گذر جانے کی
رات جوں توں سہی گزر بھی گئی
بات دل سے مگر نہیں جاتی
سخت لہجہ مِرا بُرا میں سہی
آپ کیوں آئے میرے لہجے میں
ہم تغافل میں بسر کرتے ہیں اپنے شب و روز
ورنہ ہیں کارِ جہاں اتنے کہ فرصت نہ ملے
بہت سایہ ہے میرے گھر میں اب تک
جو تنہا گھر میں اک بوڑھا شجر ہے
سب تھے خاموش مثل چو پایے
صرف اک ہانکا لگانا تھا اسے
چاند پہ ڈالتا ہے جب کوئی گستاخ نظر
بادل آ کر کے تب اظہار وفا کرتے ہیں
حال کیا ہو گا حکومت کا سیاست جانے
ہم پرندے ہیں کھلی آب و ہوا مانگتے ہیں
وصالِ یار عنقا ہو گیا ہے
غمِ ہجراں میں جینا سیکھ لیجے
میں تنکا ہی سہی سیلِ رواں کا
ضروت آ پڑے امکان ہوں میں
راستے روک دو سرحد پہ لگا دو تالے
اس سیاست نے بہت ہم کو اذیت دی ہے
کام بہت ہیں ان کو پَر نپٹاۓ کون
خود کر لوں گا اس کے در پر جائے کون
کچھ اس طرح سے مرے ذہن و دل پہ طاری ہے
ہر ایک بات پہ اس کا ہی ذکر ہوتا ہے
فیصلہ طے تھا سنانا تھا اسے
اپنی اوقات دکھانا تھا اسے
جیت دلی کی ہوئی نفرتوں کی ہار کے ساتھ
عاپ سرکار ہے ہم آپ ہیں سرکار کے ساتھ
کتنی معصومیت ہے ناداں میں
بولتا ہے کمال کرتا ہے
اس کے چہرے سے جڑ گیا قصہ
اس کو دیکھا تو بات یاد آئی
میں تیری بزم میں یہ سوچ کر نہیں آیا
کسی نے پوچھ اگر یہ لیا کہ کون ہیں آپ
راستہ نکلے گا اُس پار اسی صحرا سے
ٹھان لی بات تو پھر غور و تامُّل کیسا
ہر ایک شخص محو ہے خود اپنے ذکر میں
سنتا کہاں ہے کوئی سنانے کی فکر میں
ایسا وصال یار کہ یاد آئے دن ہمیں
اچھے بہت تھے کٹ گئے جو پہلے ہجر میں
ہائے رے کیسا یہ آیا ہے خزاں کا موسم
درد پنہاں جو مرے دل میں تھا باہر نکلا
یہ نہ سوچا کہ وہ کردار تک آ جائے گا
ہاتھ بڑھ کر مری دستار تک آ جائے گا
اس طرح ٹوٹ رہی ہیں سانسیں
جیسے آیا ہو خزاں کا موسم
نکہتِ بادِ صبا بوئے وفا کیا چاہتے ہو
گلستاں میں گل و بلبل کے سوا کیا چاہتے ہو
میں امتحان گاہ میں بیٹھا ہوں مطمئن
اہلِ خرد کے واسطے یہ امتحان ہے
عید کا دن ہے کیا کیا جائے
سلسلہ غم کا ٹوٹتا ہی نہیں
خزاں کے بعد ہی آئے گی نئی فصل بہار
رات ڈھلتی ہے تو پھر صبح جواں ہوتی ہے
گلستاں میں گل ہیں کتنے اور کتنی بلبلیں
باغباں سے پوچھنا طوفاں گذر جانے کے بعد
جانے والے ہم کو تھے کتنے عزیز
اور یادوں کی کسک دو چار دن
جستجو میں لئے پھرتا رہا آنکھیں اپنی
دفعتا میری تگ و دو کا ستارہ چمکا
یہ کلام اس کا کمال ہے تو سخنوروں سے سوال ہے
جو کلام ایسا ہی دل کشا کوئی دوسرا ہو تو لے کے آ
اور کتنے ہیں جہاں حد نظر کے آگے
اک سفر اور ہے ہر ایک سفر کے آگے
میں ناقد ہوں نہ کوئی نکتہ بیں ہوں
مگر چہرے پہ تیرے کیا لکھا ہے
سورج کو جانتے ہیں ہم اس کی ذات سے
پہچان ذات سے ہے القاب سے نہیں
روکے سورج کو یا گل کرے چاند کو
گر سمجھتا ہے کہ وہ خدا ہو گیا
نیکی جو کرو کہتے ہیں دریا میں اسے ڈال
شہرت کی تمنا ہے صلہ کچھ نہ ملے گا
انا کے زعم میں خود کو سمجھتا ہے خدا لیکن
خود اس کی بے بسی اس کو خدا ہونے نہیں دیتی
شہر میں ہے خامشی تالے ہیں زبان پر
سارے کارنامے ہیں جنابِ شہر یار کے
دیارِ شوق میں آئے قیود و بند کے بعد
وصالِ یار تھا کیا ہجر کی گزند کے بعد
مجھے پیار اپنی زمیں سے ہے مرا مسئلہ بھی یہیں کا ہے
مرے مسئلے میں خموش تو کہ یہ مسئلہ کہیں اور کا
میں تنکا ہی سہی سیلِ رواں کا
ضروت آ پڑے امکان ہوں میں
وہ کوئی کام ادھورا بھی نہیں کرتا کبھی
وعدہ کرتا ہے تو پورا بھی نہیں کرتا کبھی
مصلحت اپنی بڑھی اتنی کہ سب ختم ہوئی
تھوڑی جو کچھ تھی بچی دوستی دو چار کے ساتھ
وہ بود و باش میں بالکل ہمارے جیسا ہے
زباں بھی ایک ہے لیکن وہ ہم زباں نہ ہوا
خموش تم ہو تو کیسا گھٹا گھٹا موسم
زباں جو کھولو تو موسم بدل بھی سکتے ہو