کبھی جناب اگر ہم سے گفتگو کرتے
خطاب ہم کو بالفاظ تم یا تو کرتے
سہی ہے شکوہ شکایت ہیں راستے دشوار
مگر کچھ آپ بھی منزل کی جستجو کرتے
وہ بات ان سے جو میں نے کہی کہ راز کی ہے
تو ذکر اس کا سنا لوگ کو بہ کو کرتے
اے کاش چاند اتر کر زمیں پہ آ جاتا
ترے جبین کے ہم اس کو رو بہ رو کرتے
وہ پیرہن کو مرے تار تار کرتے رہے
ہم اس کو حسب ضرورت رہے رفو کرتے
کہانی ختم ہوئی آخرش وصال ہوا
ہم اور وصل کی کیا خاک آرزو کرتے
ابھی تو بزم کے سجنے میں وقت ہے شاید
تو تھوڑی دیر سہی بیٹھے ہاو و ہو کرتے
انا کی بات تھی راشد وہ مان بھی جاتا