اب محبت نفرتوں کے بیچ بیگانی سی ہے
پیار اور الفت کی چھوڑو بات انجانی سی ہے
زندگی بد حال ہے بے خود ہے دیوانی سی ہے
اور ہوس ہر ایک دل میں دشمنِ جانی سی ہے
عقل و دانش کے حسیں رخ پر سیاست کی نظر
لب پہ خاموشی ہے چھائی دل میں انجانا سا ڈر
اس جہانِ خاک و خوں میں اب رہا جاتا نہیں
زہر آلودہ فضا ہے دم لیا جاتا نہیں
جی میں آتا ہے کہ اب پھر سے چمن آباد ہو
ذرہ ذرہ اس چمن کا نغمہ خواں ہو شاد ہو
بجلیوں کا ڈر کبھی ہو نا کوئی صیاد ہو
پھر چمن یہ باغباں کے ظلم سے آزاد ہو