موجِ دریا کو کنارا چاہئے
مضطرب دل کو سہارا چاہئے
پی لیا کیا میں نے اک جام نیاز
جام مجھ کو وہ دوبارہ چاہئے
ضد ہوس کی ماہِ کامل چاہئے
شوق کو بس اک نظارہ چاہئے
بعد میں طوفان بن جائیں گی یہ
ان ہواؤں کو اشارہ چاہئے
توڑ دیجے شوق سے دل کو مرے
پر مجھے اس کا خسارہ چاہئے
اپنے منہ میں رکھ لو تم میری زباں
ساتھ تم کو گر ہمارا چاہئے
آسماں میں اڑنا راشد ٹھیک ہے
پر زمیں کا بھی سہارا چاہئے