دست بستہ میں رہوں
ہونٹ اپنے میں سلوں
سچ زباں سے گر کہوں
گھونٹ کڑوے میں پیوں
خار دامن میں لئے
میں بھٹکتا ہی پھروں
پھر بھی کیوں ظالم ہوں میں
فقر و فاقہ ہی سہی
چہرے پہ میرے نور تھا
مجھ کو خوف و ڈر دیا
میری خوشیاں چھین لیں
نیندیں میری چھین لیں
آرزوئیں چھین لیں
پھر بھی کیوں قاتل ہوں میں
شمعیں جلا کر علم کی
روشن جہاں کو کر دیا
آندھیوں سے لڑ کے بھی
طوفاں کو حیراں کر دیا
میں نے کتابیں دی اسے
میں نے قلم اس کو دیا
پھر بھی کیوں سائل ہوں میں
سوچو ان باتوں کو تم
اپنے سوالوں کو بھی تم
آزاد ہو لب کھولو تم
غارت گر باطل ہو تم
بزم مے ہے یاں کوئی
جام یوں دیتا نہیں
آگے بڑھ کر جام لو
ہاتھ پھر ملنا نہیں
سارے بہانے چھوڑ دو
رنگیں فسانے چھوڑ دو
اپنے پرکھوں کے وہی
قصے پرانے چھوڑ دو
سر اٹھا کر تم چلو
باتیں بنانا چھوڑ دو
ظلمتیں چھٹ جائیں گی
کلفتیں مٹ جائیں گی
صبح نو کی پھر وہی
کرنیں پلٹ کر آئیں گی