حسن کیا اس کی دمک دو چار دن
پھول کی کتنی مہک دو چار دن
ننھے پودے ہو گئے بوڑھے درخت
ٹہنیوں کی تھی لچک دو چار دن
جانے والے ہم کو تھے کتنے عزیز
اور یادوں کی کسک دو چار دن
کون آیا ہے چمن میں خیر ہو
ہائے بلبل کی چہک دو چار دن
کس زمیں پر تم چلو گے سوچ لو
سر پہ ہے دستِ فلک دو چار دن
علم کا زیور چمکتا ہے سدا
مال و دولت کی چمک دو چار دن
پی کے وعدوں کے ترے جام و سبو
دل میں تھی کتنی للک دو چار دن
شہ ترا مہمان ہے کچھ روز کا
تیرے لہجے کی کھنک دو چار دن
درد و غم ہیں زندگی کے واسطے
اور خوشیوں کی جھلک دو چار دن
آنکھ کھولی راشد اور پھر موند لی