کتنے چہرے ایک چہرے پر لئے
بولتے ہیں دل میں اک خنجر لئے
ان کی باتیں آج کچھ کل اور تھیں
پھرتے ہیں دو صورتیں اک سر لئے
قیس آیا ہے گلی میں شور ہے
لوگ نکلے ہاتھ میں پتھر لئے
زندگی بھر بے مروت وقتِ مرگ
سامنے بیٹھے ہیں بحر و بر لئے
سامنے تھیں کس قدر مجبوریاں
اس نے سب الزام اپنے سر لئے
باتیں راشد گھر کے اندر ہی رہیں
بیٹھے ہیں باہر پرندے پر لئے