طلب ہے آب کی اور وہ شراب دیتے ہیں
مجھے سوال سے پہلے جواب دیتے ہیں
سوال کرنے سے ڈرتا ہوں کیوں کہ اکثر وہ
جواب دیتے ہیں تو لا جواب دیتے ہیں
وہ چند لمحوں کا احسان کیا لیا میں نے
تمام عمر وہ لمحے عذاب دیتے ہیں
کرم وہ اپنا مجھے بارہا جتاتے ہیں
مگر ستم کا مجھے کم حساب دیتے ہیں
میں دشتِ شوق میں امید پہ تو زندہ ہوں
وہ تشنہ لب کو مرے بس سراب دیتے ہیں