Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


راشد عالم راشد

دن ہمارے شب گَزیدہ ہو گئے

دن ہمارے شب گَزیدہ ہو گئے

زخم دل کے آب دیدہ ہو گئے

 

ہم کہانی سے ہی کیا رخصت ہوئے

مثلِ حرفِ نا شنیدہ ہو گئے

 

فکرِ فردا اور غمِ امروز میں

ننھے چہرے سِن رسیدہ ہو گئے

 

میں نے رسما لکھ دیا عالی جناب

وہ تو جیسے اک قصیدہ ہو گئے

 

اک ذرا سی بات پر میرے حضور

آپ تو خاطر کبیدہ ہو گئے

 

جن کا طوطی بولتا تھا صبح و شام

آخرش وہ بر گُزیدہ ہو گئے

 

بکھری زلفیں پکڑے دستِ ناز سے

وہ کہ جب قامت خمیدہ ہو گئے