وہی ایک قصہ فسانہ جیسا جو کچھ نیا ہو تو لے کے آ
ذرا اپنے ماضی پہ صرف رونے کے کچھ سوا ہو تو لے کے آ
تگ و دو سے اپنا تو کام کر یہی معجزہ سرِ عام کر
یونہی بیٹھ کر ذرا کن فکاں کوئی معجزہ ہو تو لے کے آ
رہِ عشق کا یہ شعار ہے کہیں دشت ہے کہیں خار ہے
کہیں عشق میں گلوں سے بھرا کوئی راستہ ہو تو لے کے آ
یہ کلام اس کا کمال ہے تو سخنوروں سے سوال ہے
جو کلام ایسا ہی دل کشا کوئی دوسرا ہو تو لے کے آ
جو چمن سمجھتے ہیں ہم اسے جہاں گل ہوں کتنے ہی رنگ کے
سو چمن بھی ایک ہی رنگ کا کہیں بن سکا ہو تو لے کے آ