Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


راشد عالم راشد

وہی ایک قصہ فسانہ جیسا جو کچھ نیا ہو تو لے کے آ

وہی ایک قصہ فسانہ جیسا جو کچھ نیا ہو تو لے کے آ

ذرا اپنے ماضی پہ صرف رونے کے کچھ سوا ہو تو لے کے آ

 

تگ و دو سے اپنا تو کام کر یہی معجزہ سرِ عام کر

یونہی بیٹھ کر ذرا کن فکاں کوئی معجزہ ہو تو لے کے آ

 

رہِ عشق کا یہ شعار ہے کہیں دشت ہے کہیں خار ہے

کہیں عشق میں گلوں سے بھرا کوئی راستہ ہو تو لے کے آ

 

یہ کلام اس کا کمال ہے تو سخنوروں سے سوال ہے

جو کلام ایسا ہی دل کشا کوئی دوسرا ہو تو لے کے آ

 

جو چمن سمجھتے ہیں ہم اسے جہاں گل ہوں کتنے ہی رنگ کے

سو چمن بھی ایک ہی رنگ کا کہیں بن سکا ہو تو لے کے آ