تم کو جو حسن مجھے اس نے ذہانت دی ہے
تیرے ہر دام سے بچنے کی بھی حکمت دی ہے
صرف خوابوں نے ہی انجام سے غفلت دی ہے
جاگ بھی جاؤ کہ طوفان نے مہلت دی ہے
اک غلط فہمی میں پرواز نہ رک جائے کہیں
تجھ کو اللہ نے تھوڑی سی جو شہرت دی ہے
جذبۂ دشت نوردی ہو یا پھر کوہکنی
عشقِ مستانہ کو دنیا نے محبت دی ہے
راستے روک دو سرحد پہ لگا دو تالے
اس سیاست نے بہت ہم کو اذیت دی ہے
یہ زمیں اور ہوا اوجِ فلک تیرے نہیں
پھر تجھے کس نے مرے دل کی حکومت دی ہے
خوشیاں آتی ہیں چلی جاتی ہیں واپس پل میں
تیری یادوں نے بہت درد میں برکت دی ہے
میں ترے شہر سے واپس نہیں جانے والا
چشمِ پُر نم نے ٹھہر جانے کی دعوت دی ہے