Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


راشد عالم راشد

تم کو جو حسن مجھے اس نے ذہانت دی ہے

تم کو جو حسن مجھے اس نے ذہانت دی ہے

تیرے ہر دام سے بچنے کی بھی حکمت دی ہے

 

صرف خوابوں نے ہی انجام سے غفلت دی ہے

جاگ بھی جاؤ کہ طوفان نے مہلت دی ہے

 

اک غلط فہمی میں پرواز نہ رک جائے کہیں

تجھ کو اللہ نے تھوڑی سی جو شہرت دی ہے

 

جذبۂ دشت نوردی ہو یا پھر کوہکنی

عشقِ مستانہ کو دنیا نے محبت دی ہے

 

راستے روک دو سرحد پہ لگا دو تالے

اس سیاست نے بہت ہم کو اذیت دی ہے

 

یہ زمیں اور ہوا اوجِ فلک تیرے نہیں

پھر تجھے کس نے مرے دل کی حکومت دی ہے

 

خوشیاں آتی ہیں چلی جاتی ہیں واپس پل میں

تیری یادوں نے بہت درد میں برکت دی ہے

 

میں ترے شہر سے واپس نہیں جانے والا

چشمِ پُر نم نے ٹھہر جانے کی دعوت دی ہے