زخم دل کے نہ جلن میں ہوتے
تیر اتنے نہ سخن میں ہوتے
اپنی منزل تھی نظر میں ورنہ
دو قدم چلتے تھکن میں ہوتے
ہے خمیر اپنا اسی مٹی سے
مرتے بھی خاکِ وطن میں ہوتے
بہہ گئے اشک چلو اچھا ہے
بند رہتے تو گھٹن میں ہوتے
وہ بظاہر تو اسی عہد کے ہیں
ورنہ وہ عہدِ کُہن میں ہوتے
ہم نے تنہائی میں کچھ کام کیا