چاندنی چاہے ماہتاب کی ہے
جو بھی رونق ہے آفتاب کی ہے
ساری دنیا کی سیر کر آئے
پھر بھی حرکت وہی جناب کی ہے
میں تو بس نقل کر رہا تھا اسے
یہ عبارت تری کتا ب کی ہے
یہ جو حالت ہوئی گلستاں کی
یہ تو تعبیر تیرے خواب کی ہے
کس قدر ہے وفورِ حسرتِ دل
عمرِ حسرت ہر اک حباب کی ہے
ساقیا تو مجھے عطا کر دے
جو بھی صہبا ترے حساب کی ہے