میں نے یہ سوچا نہ تھا وہ بے وفا ہو جائے گا
میں پیمبر امن کا وہ کربلا ہو جائے گا
اپنی دزدیدہ نگاہوں سے نہ تم دیکھا کرو
اک غلط فہمی میں اک دن واقعہ ہو جائے گا
چھائی ہے کالی گھٹا اور ایک ہے ہنستا گلاب
آج لگتا ہے چمن میں سانحہ ہو جائے گا
میں شبِ تاریک میں یہ سوچ کر تھا تیز گام
صبحِ نو بیدار ہوگی قافلہ ہو جائے گا
برق سے کانھا ملانا برق رفتاری کے ساتھ
ورنہ اک چشمِ زدن میں حادثہ ہو جائے گا
میں نے اپنی عمر ساری اس گماں میں کاٹ دی
آنے جانے کا کسی دن سلسلہ ہو جائے گا
گر نہیں لطف و کرم تو مسکرا دیجے حضور
آپ کا جائے گا کیا میرا بھلا ہو جائے گا
میں ہی تھا کوتاہ یا منصف کا تھا اس میں قصور
ایک قاتل ایک دن حاکم مرا ہو جائے گا
آئے طوفاں بھی تو راشد حوصلہ مت ہارنا
حوصلے کو دیکھ کر طوفاں ہوا ہو جائے گا