Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


راشد عالم راشد

میں نے یہ سوچا نہ تھا وہ بے وفا ہو جائے گا

میں نے یہ سوچا نہ تھا وہ بے وفا ہو جائے گا

میں پیمبر امن کا وہ کربلا ہو جائے گا

 

اپنی دزدیدہ نگاہوں سے نہ تم دیکھا کرو

اک غلط فہمی میں اک دن واقعہ ہو جائے گا

 

چھائی ہے کالی گھٹا اور ایک ہے ہنستا گلاب

آج لگتا ہے چمن میں سانحہ ہو جائے گا

 

میں شبِ تاریک میں یہ سوچ کر تھا تیز گام

صبحِ نو بیدار ہوگی قافلہ ہو جائے گا

 

برق سے کانھا ملانا برق رفتاری کے ساتھ

ورنہ اک چشمِ زدن میں حادثہ ہو جائے گا

 

میں نے اپنی عمر ساری اس گماں میں کاٹ دی

آنے جانے کا کسی دن سلسلہ ہو جائے گا

 

گر نہیں لطف و کرم تو مسکرا دیجے حضور

آپ کا جائے گا کیا میرا بھلا ہو جائے گا

 

میں ہی تھا کوتاہ یا منصف کا تھا اس میں قصور

ایک قاتل ایک دن حاکم مرا ہو جائے گا

 

آئے طوفاں بھی تو راشد حوصلہ مت ہارنا

حوصلے کو دیکھ کر طوفاں ہوا ہو جائے گا