ہے علاجِ درد آزارِ قفس
خیر کا طالب ہے بیمارِ قفس
دور تھے وحشی صفت صیاد سے
کر لیا ہم نے بھی دیدارِ قفس
ہر طرف بکھری ہوئی ہیں وحشتیں
سر اٹھائے بیٹھا ہے مارِ قفس
ہے چمن میں اپنے ہی جانا گناہ
توڑ سکتے ہم جو دیوارِ قفس
قید کر لے جو ہماری سوچ کو