اکڑ کے چلتے ہو دیکھو پھسل بھی سکتے ہو
نظر جھکا لو زمیں پر سنبھل بھی سکتے ہو
ابھی بھی وقت ہے تم فیصلے پہ غور کرو
ابھی بھی وقت ہے موقف بدل بھی سکتے ہو
جو سب کی نظروں میں چھبتے ہو بن کے اک کانٹا
اگر جو چاہو تو تم پھول پَھل بھی سکتے ہو
جہاں میں دائمی دشمن نہ دوست ہے کوئی
تم ایک رنگ سے باہر نکل بھی سکتے ہو
دل و دماغ تمہارے اگر جو روشن ہوں
اندھیری رات میں بے خوف چل بھی سکتے ہو
خموش تم ہو تو کیسا گھٹا گھٹا موسم
زباں جو کھولو تو موسم بدل بھی سکتے ہو