ظلمتیں عقل و آگہی کے گرد
پیر اپنا جمائے بیٹھی ہیں
رونقیں مارے خوف و وحشت کے
دست بستہ ادب سے سہمی ہیں
ایک صیاد ہے گلستاں میں
ہر طرف بس اسی کا چرچا ہے
گلستاں میں گلوں کو اپنے ہی
دوسرے گل سے ایک خطرہ ہے
بلبلیں دم بخود گلستاں میں
ان کی آنکھوں میں دشت و صحرا ہے
باغباں دیکھتا ہے سب چپ چاپ
اس کی آنکھوں کا رنگ گہرا ہے
کوئی موقع ہو جب بھی کہنے کا
سارے گلشن میں بس یہ کہتا ہے
پھول تو بس کھلے گا گیندے کا
باقی گل کا بھی کوئی کِھلنا ہے
بولیں سب مل کے ایک ہی بولی
گر گلستاں میں سب کو رہنا ہے
باغباں سے کوئی تو یہ پوچھے
زور دنیا میں کس کا چلتا ہے
گلستاں میں چلے گی باد صبا
آندھیوں کا تو بس گزرنا ہے