یہ شہر سارا جو جل رہا ہے
میں پوچھتا ہوں کیوں جل رہا ہے
کوئی جنگل ہے آگ اس کو جلا رہی ہے
یا کوئی آتش فشاں کا لاوا زمیں سے جیسے ابل رہا ہے
تو کون اس کو جلا رہا ہے ؟
پتہ ہے سب کو مگر زباں پر لگے ہیں تالے
تالے یا تو ہیں مصلحت کے
یا تو تالے ہیں خوف و ڈر کے
غرض مجھے کیا ہے تالے جو بھی ہیں
مصلحت کے خوف و ڈر کے
غرض تو ہے ان ننھے بچوں سے
مارے وحشت کے رو رہے ہیں
ہاتھ ان کے کٹے ہوئے ہیں
خون زخموں سے بہہ رہے ہیں
ماں کا سایہ اجڑ گیا ہے
باپ لاشہ پڑا ہوا ہے
مجھے غرض ہے تو اس صدا سے
جو مائیں کہہ کر لگا رہی ہیں
کہاں ہیں منصف کہاں ہیں آقا
کہاں ہیں انسانیت کے داتا
مجھے غرض ہے تو ان مکاں سے
جو دئیے کی مانند جل رہے ہیں
ڈھیر ملبوں میں جسم انساں تڑپ رہے ہیں
جگہ جگہ پر بدن کے اعضا کٹے پڑے ہیں
باپ کندھوں پہ لاشیں بچوں کی ڈھو رہے ہیں
کریہ منظر غریب منظر
بے حسی کا عجیب منظر
ظالموں پر خدا کی لعنت
قاتلوں پر عذاب قدرت
ننھی جاں کے لہو کے صدقے
مامتا کی دعا بھی سن لے
میری دنیا اجڑ گئی ہے
گویا قسمت بگڑ گئی ہے
اپنے رحم و کرم سے آقا
وحشیوں کو مرے خدایا
سیدھا رستہ دکھا اے مولا