گل کو تیرے رخ سے نسبت ہو گئی
گل میں آتش کی تمازت ہو گئی
جیسی نیت ویسی برکت ہو گئی
میری چاہت میری قسمت ہو گئی
آپ کس دنیا میں ہیں گھوئے ہوے
ان کو گذرے ایک مدت ہو گئی
کیا کروں اب زندگی کس کام کی
ہر خوشی سے گویا نفرت ہو گئی
اس کو کھو کر میں اکیلا ھو گیا
مفلسی کی اب تو عادت ہو گئی
ہم سے نفرت غیر سے ہمدردیان
آپ کی کیسی طبیعت ہو گئی
وہ جو آئے پاس آئی زندگی
ان کے جاتے ہی قیامت ہو گئی
کیا بتاؤں راشد ان کی خوبیاں
ساری عزت مال و دولت ہو گئی