میری زمیں نہیں ہے ترا آسماں نہیں
یاں دائمی کسی کا کوئی آشیاں نہیں
ناکامیوں نے مجھ کو تو چلنا سکھا دیا
پیہم عمل کی راہ میں محرومیاں نہیں
اپنے ہی گھر میں ہم تو بہت شیر تھے مگر
باہر نکل کے آئے تو منہ میں زباں نہیں
ظالم تباہ ہو گیا۔ آہوں کی آگ سے
مظلوم اور خدا کے کوئی درمیاں نہیں
کیسے بتائیں ہم پہ جو گذری ہے شبِ ہجر
اک لمبی داستان ہے ممکن بیاں نہیں
راشد غزل سُنائیے لفظوں کو تول کر
بے ربط گفتگو پہ تو شاباشیاں نہیں