خموشی میں اشارے بولتے ہیں
فلک میں چاند تارے بولتے ہیں
یہ خطبے ہیں ردیف و قافیے کے
غزل میں استعارے بولتے ہیں
بڑا کوئی نہیں ہے گھر میں جیسے
کسی سے پوچھو سارے بولتے ہیں
جو گھر میں روز سنتے ہیں بڑوں سے
وہی بچے ہمارے بولتے ہیں
بظاہر حال سب اچھا ہے لیکن
نگاہوں سے شرارے بولتے ہیں
کوئی بھی سامنے کب بولتا ہے
سبھی پیچھے ہمارے بولتے ہیں