Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


راشد عالم راشد

ہمیں درد دل سے نکلتا دکھا دو

ہمیں درد دل سے نکلتا دکھا دو

لہو آنکھ سے پھر ٹپکتا دکھا دو

 

سنا ہے کہ پتھر پگھلتے ہیں آخر

مجھے ان کا دل بھی پگھلتا دکھا دو

 

بلندی پہ چڑھنا نہ کوئی تھکن ہو

کوئی نسخہ ایسا بھی سستا دکھا دو

 

دئے جن کے ہاتھوں میں روشن رہے ہیں

مجھے کوئی ان میں بھٹکتا دکھا دو

 

مسائل پہ ہم نے بہت بات کر لی

مجھے رہبروں کوئی رستہ دکھا دو

 

جہالت کے ہاتھوں میں جمہوریت ہے

خدا را کوئی  چہرا ہنستا دکھا دو

 

چمن میں خبر ہے کہ صیاد آیا

مجھے کوئی بلبل چہکتا دکھا دو