ہمیں زور اب آزمانا ہے پھر سے
کہ سر آسماں کا جھکانا ہے پھر سے
چلے آبلہ پا سرِ راہ منزل
قدم بھی ہمیں کو جمانا ہے پھر سے
وه پھر آج مجھ سے خفا ہو گیا ہے
قیامت ہے اس کو منانا ہے پھر سے
یہ نفرت کی کچھ روز کی آندھیاں ہیں
چراغ محبت جلانا ہے پھر سے
تری بجلیوں سے بڑی دوستی ہے
تجھے آشیاں کو جلانا ہے پھر سے
تمہیں چاہئیے کیا حکومت سیاست
تو آپس میں ہم کو لڑانا ہے پھر سے