اپنےدل کی میں آن رکھتا ہوں
اک امیری کی شان رکھتا ہوں
جو ذرا مسکرا کے ملتے ہیں
ان کے قدموں میں جان رکھتا ہوں
فکر لازم ہے آبگینے کی
ٹوٹ نہ جائے دھیان رکھتا ہوں
یہ پرندے فضا میں اُڑتے ہیں
میں الگ آسمان رکھتا ہوں
بس شرافت ہے میری مجبوری
ورنہ میں بھی زبان رکھتا ہوں
گر وہ یوسف ہے لوٹ آئے گا
میں یہ اچھا گمان رکھتا ہوں