چند لمحوں کی ہیں یہ تاریکیاں
کس قدر ہے معرکہ آرائیاں
کشمکش ہے خیر و شر کے درمیاں
لب ہیں لرزاں اور یہ لوح و قلم
دیکھ کر فرعون کی من مانیاں
ہے کہاں دریا سمندر کا حریف
کیوں سمندر میں اٹھیں طغیانیاں
سارا موسم بادلوں کے زیر ہے
اور ہواؤں کی بھی ہے اٹکھیلیاں
ہیں چمن میں پھول اب سہمے ہوئے
بجلیوں کے ساتھ کیوں ہے باغباں
نالے بلبل کے شبِ تاریک میں
ہر طرف بکھری ہوئی خاموشیاں
نالہ و فریاد سن کر رات بھر
ہے پرندوں میں بہت بے تابیاں
صبح نو آئے گی تھوڑا صبر کر