Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


راشد عالم راشد

وہ زمیں پر تھا مگر وہ آسماں لگنے لگا

وہ زمیں پر تھا مگر وہ آسماں لگنے لگا

اس کا سر پر ہاتھ جیسے سائباں لگنے لگا

 

نفرتوں کے بیچ میں اور  ایک صحرا ریت کا

کیا ملی اس کی عنایت آشیاں لگنے لگا

 

شکل و صورت سے بہت وہ خوبصورت نہ سہی

رہتے رہتے ساتھ مجھ کو جان جاں لگنے لگا

 

ہم بظاہر  ساتھ بیٹھے گفتگو کرتے رہے

اک عجب سا فاصلہ کیوں درمیاں لگنے لگا

 

تھے وطن سے دور لیکن دوستو کے درمیاں

ریت کا صحرا بھی ہم کو گلستاں لگنے لگا