وہ زمیں پر تھا مگر وہ آسماں لگنے لگا
اس کا سر پر ہاتھ جیسے سائباں لگنے لگا
نفرتوں کے بیچ میں اور ایک صحرا ریت کا
کیا ملی اس کی عنایت آشیاں لگنے لگا
شکل و صورت سے بہت وہ خوبصورت نہ سہی
رہتے رہتے ساتھ مجھ کو جان جاں لگنے لگا
ہم بظاہر ساتھ بیٹھے گفتگو کرتے رہے
اک عجب سا فاصلہ کیوں درمیاں لگنے لگا
تھے وطن سے دور لیکن دوستو کے درمیاں
ریت کا صحرا بھی ہم کو گلستاں لگنے لگا