میں سنا گیا کسی اور سے میں کہا گیا کہیں اور کا
تری گفتگو کا ہے رنگ الگ ترا فلسفہ کہیں اور کا
اسی گھر میں ہم ہوئے ہیں جواں یہیں دفن ہم یہیں تربتیں
جو ثبوت ہم سے ہے مانگتا وہ ہے بے وفا کہیں اور کا
مرا حوصلہ مری راہ میں مری منزلیں ہیں نگاہ میں
ترے راستے میں ہیں ظلمتیں ترا راستہ کہیں اور کا
ترے پاس شہرت و نام ہے ترے ہاتھ نظم و نظام ہے
تو ہے درد و غم سے نہ آشنا تو ہے نا خدا کہیں اور کا
ذرا سن تو میری اے راہبر تو ہے کارواں سے ہی بے خبر
تجھے کارواں سے غرض نہیں تو ہے رہنما کہیں اور کا
مجھے پیار اپنی زمیں سے ہے مرا مسئلہ بھی یہیں کا ہے
مرے مسئلے میں خموش تو کہ یہ مسئلہ کہیں اور کا