اس نے دیکھے تھے بڑے خواب سنہرے کتنے
دشتِ تاریخ میں مدفون ہیں چہرے کتنے
عشق یا مشک چھپانے سے کہاں چھپتا ہے
اس پہ ہر آن لگائے گئے پہرے کتنے
جنگ تو کرتے رہے ہم نے یہ سوچا تھا کبھی
ہم زمیں جیت گئے ہم زباں ہارے کتنے
خون گر یوں ہی رہا خلق خدا کا ارزاں
نوحہ پھر کیجے ہمارے ہیں تمہارے کتنے
اک قدم رکھا نہیں مانگتے ہو اجر و صلہ