Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

تعارف

اعجاز حیدر

اعجاز حیدر

سب کو اپنا اپنا غم ہے

نفسا نفسی کا عالم ہے

سانس چلے ہے اس عالم میں

اس عالم میں کیا یہ کم ہے


جانے کیا ہوتا ہے اور ہوتا ہے کیوں شام کے وقت

کیوں نہ سورج سے ہی یہ بات کروں شام کے وقت

دن گیا ہاتھ چھڑا کر سو میں اب چاہتا ہوں

جتنا ممکن ہو ترے ساتھ رہوں شام کے وقت


اگرچہ پاوں میں پھر آبلے بنائیں گے

دلوں پہ نقشے نئے درد کے بنائیں گے

خدا کے بعد محبت پہ ہے یقین مرا

یہ فاصلے ہی نئے راستے بنائیں گے


غم ہیں پھر سے اداس، آئیں گے

آئیں گے میرے پاس آئیں گے

ہیں خوشی آپ اگر، خدا حافظ

آپ مجھ کو نہ راس آئیں گے


اپنے کاندھے کو ہٹا لے مجھے گر جانے دے

ورنہ چلنے کا مجھے ڈھب نہیں آنے والا


فلسفہ ہے یہ حادثہ نہیں ہے
کربلا صرف واقعہ نہیں ہے


ہجر ویسے ہی مار دیتا ہے

اور اس پر فراقِ یار کا دکھ


دن گیا ہاتھ چھڑا کر, سو مَیں اب چاہتا ہوں

جتنا ممکن ہو, تِرے ساتھ رہوں شام کے وقت


حسن ہو صورتِ پندار بھلے ہو کہ نہ ہو

ہم فقط شوخیِ گفتار پہ مر مٹتے ہیں


میرا اک حرفِ شکایت بھی ہے آزار کی بات

ان کی ہر بات ہے آزادی اظہار کی بات 


یہ حادثہ ہے کہ اس نے نگاہ پهیری ہے
یہ سانحہ ہے کہ دل اس کے نام کر بیٹهے


آنکھ میں رہنے والے سن

اشک ڈوبو بھی سکتا ہے


نہ جانے اور بھی کیا کیا ہے اس کی فطرت میں

وہ بدسگال فقط بدحواس تو نہیں ہے


اب اصل چہرے نظر آ رہے ہیں دیکھیے تو

نقاب الٹتے چلے جا رہے ہیں دیکھیے تو 


وہ تو دل ضد پہ آگیا ورنہ

میں تیرے غم کو ٹال سکتا تھا


پرانے گھر کو نیا گر بنایا جانا ہے

ضرورتا" اسے پہلے گرایا جانا ہے


وہ مرے نام پہ اپنے لیے اجرت مانگے

بولنے کی بھی خموشی کی بھی قیمت مانگے


لے کر مجھے جہاں یہ گئی میں وہاں گیا

یوں زندگی کے ساتھ چلا رائیگاں گیا


دیکھ کے جنگل والے شرم سے مر جائیں

میرے شہر میں ایسے وحشی رہتے ہیں


اب تو ہر کوئی خاص الخاص دکھائی دے

پہلے پہلے بندے عام بھی ہوتے تھے


بے مقصد بھی آنا جانا رہتا تھا

کتنے غیر ضروری کام بھی ہوتے تھے


خوشی تو دور سے مجھ کو سلام کرتی ہے
یہ غم ہی ہے جو گلے مل کے حال پوچھتا ہے


کیا ہوا گر سراب جھیلے ہیں

ہم نے صحرا کی آبرو تو رکھی


خدا کے بعد محبت پہ ہے یقین مرا

یہ فاصلے ہی نئے راستے بنائیں گے


آگئی ہے یہ وبا حکم_خدا سے جائے گی

آدمی کو آدمیت کا سبق دے جائے گی


کیسے دیکھوں میں کہیں دور کوئی نخلستان

میری آنکھیں ہیں سرابوں کی چمک سے خیرہ


مجھے مٹانے کا سوچتا ہے عجیب ہے وہ

میں ہوں پریشان، کس قدر بد نصیب ہے وہ


اب تو یہ خواب بھی ہے روٹھ کے جانے والا

کاش ہوتا کوئی تعبیر بتانے والا