رہتا اس پر ہی آنا جانا ہے
یہ جو اک راستہ میانہ ہے
گفتگو کتنی عالمانہ ہے
جستجو کتنی عامیانہ ہے
میں نئے متن کا کروں گا کیا
حاشیہ گر وہی پرانا ہے
اپنا اپنا مفاد ہے سب کا
دوستی دشمنی بہانہ ہے
زیست کا اختصار کیا کہیے
آئے ہی تھے کہ لوٹ جانا ہے
بند گلیوں کے شہر میں، حیدر
بے دریچہ اک آشیانہ ہے