Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


اعجاز حیدر

رہتا اس پر ہی آنا جانا ہے

رہتا اس پر ہی آنا جانا ہے

یہ جو اک راستہ میانہ ہے

 

 

گفتگو کتنی عالمانہ ہے

جستجو کتنی عامیانہ ہے

 

 

میں نئے متن کا کروں گا کیا

حاشیہ گر وہی پرانا ہے

 

 

اپنا اپنا مفاد ہے سب کا

دوستی دشمنی بہانہ ہے

 

 

زیست کا اختصار کیا کہیے

آئے ہی تھے کہ لوٹ جانا ہے

 

 

بند گلیوں کے شہر میں، حیدر

بے دریچہ اک آشیانہ ہے