ہر بار ٹوٹتا ہے پہ مائل تو پھر بھی ہے
دیوانہ اپنے ڈھب سے مرا دل تو پھر بھی ہے
کیا ہو گیا، نہیں رہا وہ رنگ وہ شباب
اے یار تیرے گال پہ وہ تل تو پھر بھی ہے
رہ سے اسے ہٹانے کو مل بیٹھتے تو ہیں
ڈرتے بھی ہیں کہ راستہ مشکل تو پھر بھی ہے
گہرائی تیری کوسوں ہے اور موج تا فلک
اے بحر بے کراں کوئی ساحل تو پھر بھی ہے