دکھ میں آہ و زاری کرنی پڑتی ہے
اور سکھ میں سرشاری کرنا پڑتی ہے
چھیلنا پڑ جاتا ہے اپنے زخموں کو
اوروں کی غم خواری کرنی پڑتی ہے
بھیجنے والے نے بھیجا ہے دنیا میں
اس لیے دنیا داری کرنی پڑتی ہے
آخری تاریخوں میں چاند نہیں آتا
مجھ کو نجم شماری کرنی پڑتی ہے
اب تو یادیں روٹھی رہتی ہیں اکثر
خالی شب بیداری کرنی پڑتی ہے
جس کے پاس دلیل نہ ہو اس کو حیدر
لفظی گولہ باری کرنی پڑتی ہے