Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


اعجاز حیدر

اب کوئی بات ملاقات پہ مت چھوڑئے گا

اب کوئی بات ملاقات پہ مت چھوڑئے گا

حال کہہ دیجے گا حالات پہ مت چھوڑئے گا

 

 

گاتے رہیے گا کڑی دھوپ میں بھی نغمہءعشق

اب جنوں موسم_برسات پہ مت چھوڑئے گا

 

 

چشم_حیرت میں نمی رکھیے گا وجدان کی بھی

راز سارے ہی کرامات پہ مت چھوڑئے گا

 

 

شہر میں رکھیے گا کچھ پیڑ لگانے کی جگہ

یہ فریضہ بھی مضافات پہ مت چھوڑئے گا

 

 

یار جب دھیان میں آ جائے وہیں کیجئے رقص

جشن اب صورت_حالات پہ مت چھوڑئے گا

 

 

بے سبب ٹوٹ بھی جاتی ہے کبھی بات کہیں

دوست اچھا ہو تو اس بات پہ مت چھوڑئے گا

 

 

جو بھی ہونا ہے وہ ہو کر ہی رہے گا، حیدر

یعنی دل، وہم و خیالات پہ مت، چھوڑئے گا