اب کوئی بات ملاقات پہ مت چھوڑئے گا
حال کہہ دیجے گا حالات پہ مت چھوڑئے گا
گاتے رہیے گا کڑی دھوپ میں بھی نغمہءعشق
اب جنوں موسم_برسات پہ مت چھوڑئے گا
چشم_حیرت میں نمی رکھیے گا وجدان کی بھی
راز سارے ہی کرامات پہ مت چھوڑئے گا
شہر میں رکھیے گا کچھ پیڑ لگانے کی جگہ
یہ فریضہ بھی مضافات پہ مت چھوڑئے گا
یار جب دھیان میں آ جائے وہیں کیجئے رقص
جشن اب صورت_حالات پہ مت چھوڑئے گا
بے سبب ٹوٹ بھی جاتی ہے کبھی بات کہیں
دوست اچھا ہو تو اس بات پہ مت چھوڑئے گا
جو بھی ہونا ہے وہ ہو کر ہی رہے گا، حیدر
یعنی دل، وہم و خیالات پہ مت، چھوڑئے گا