خوشی کی بات تھی لیکن مجھے رلا گئی ہے
کہاں سے بات چلی تھی کہاں تک آ گئی ہے
مرا خدا تو یقینا بھرم رکھے گا مرا
میں جانتا ہوں کہ اس تک مری دعا گئی ہے
میں عام طور پہ چلتا ہوں اس سے آگے مگر
کہیں کہیں مرے آگے مری انا گئی ہے
میں اپنے نام کی تختی نہیں لگاتا کہیں
مرا پتہ مری بے مائیگی بتا گئی ہے
سنبھل کے بیٹھ تو مسند پہ صاحب_ منصب
کسی کی جان کسی کی یہاں قبا گئی ہے
تجھے یہ زعم فقط تو تھا رونق_محفل
جرس کی گونج ترے بعد جا بجا گئی ہے