Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

تعارف

فوزیہ رباب

فوزیہ رباب

عشق بھی کرنا ہے، گھر کے کام بھی

یہ مصیبت بھی نئی ہے اِن دنوں

تیرے آنے کی خبر کا ہے کمال

آئنے سے بن رہی ہے ان دنوں 


تمہیں میں یاد کروں اور بے حساب کروں

تمہارے نام نیا پھر سے انتساب کروں

وہ مجھ کو دیکھ کے دوڑا ہوا چلا آئے

میں اپنے آپ کو کچھ اس طرح سراب کروں


مانگتا ہے کوئی حساب ربابؔ

کردے آج اس کو لاجواب ربابؔ

میری راہوں میں صرف خار ہی خار

ان کی راہوں میں بس گلاب ربابؔ


مری حسرتوں کا خیال کر مرے سانولے

مجھے اپنے غم میں نڈھال کر مرے سانولے

میں رباب پوچھتی رہ گئی کہاں جائے گا

مجھے قیدِ ہجر میں ڈال کر مرے سانولے


اب وہ مشکل سمجھ رہا ہے مجھے

جس کی مشکل کا حل رہی ہوں میں

مجھ کو مڑ مڑ کے دیکھتا کیا ہے

تیرے پیچھے ہی چل رہی ہوں میں


دل میں تصویر تری آنکھ میں آثار ترے

زخم ہاتھوں میں لیے پھرتے ہیں بیمار ترے

زعم ہے تجھ کو اگر اپنے قبیلے پہ تو سُن

میرے قدموں میں گرے تھے کبھی سردار ترے


عجب جگہ پہ محبت کی بستی پڑتی ہے

قدم قدم پہ مجھے بس بدلنی پڑتی ہے

ڈری ہوئ ہے جب ہی موت سے رباب تری

گلے میں تیری جدائی کی رسی پڑتی ہے


کئی دنوں سے ہمیں نیند ہی نہیں آتی

ہماری آنکھوں کے خوابوں کی خیر ہو مولا

کسی کے قدموں کی آہٹ نہ چاپ ہے کوئی

کہ سُونے سُونے سے رستوں کی خیر ہو مولا


میری آنکھیں ہی نم ہوئ ہیں ناں!

کون سا آسمان ٹوٹا ہے


رفتہ رفتہ ہو گئے آخر تیرے نام

میرا جیون میرے موسم شہزادے


اُس نے تحفے میں پھول بھیجے تھے

میں نے تصویر بھیج دی اپنی


تمام عمر ہی سجدوں میں کٹ گئی اپنی

نماز ۔ عشق میں کوئی قیام تھا ہی نہیں


تمھاری یاد ہے ماتم کناں ابھی مجھ میں

تمھارا درد ابھی تک سیہ لباس میں ہے


رباب ایسا مجھے لگتا ہے جب پہلو بدلتی ہوں

کسی کے ہجر کے کانٹے مرے بستر میں رہتے ہیں


وہ مجھے بے وفا سمجھتا ہے

خیر! میرا خدا سمجھتا ہے


میں نے اب نیند کو ہی چشم بدر کرڈالا

خواب آیا بھی جو اس بار تو بے گھر ہوگا


وہ جو چہرہ ہی پڑھ نہیں سکتیں

کتنی جاہل گنوار آنکھیں ہیں


یہ آج سارے ستارے تجھے بتائیں گے

ترے لیے کوئی جاگا ہوا ہے بستی میں


کیسی کیسی باتیں کرنی پڑتی ہیں

جب بھی دل کی بات چھپانا پڑ جائے


دیر تک آنکھ مصیبت میں پڑی رہتی ہے

تم چلے جاتے ہو ، تصویر بنی رہتی ہے


تیری خاطر ہی فقط دست حنائی ہے ناں

میں نے تیرے ہی لیے شمع جلائی ہے ناں


زعم ہے تجھ کو اگر اپنے قبیلے پہ تو سُن

میرے قدموں میں گرے تھے کبھی سردار ترے


میری ہستی میں بھی تیری ہستی ہے

میرا مجھ میں کچھ بھی نہ چھوڑا کوزہ گر


وہ بولتا رہا ہے سب سے میرے لہجے میں

مرے کلام میں میرا کلام تھا ہی نہیں


ادھر ادھر نہیں دیکھا، نماز۔ عشق پڑھی

جنوں میں ہوش کا کوئی بھی کام تھا ہی نہیں


یوں ہی دکھ ہوجاویں گے کم شہزادے

آ جا سکھ کے خواب بنیں ہم شہزادے


زلف محبت برہم برہم می رقصم

وجد میں ہے پھر چشم پرنم می رقصم


اب مجھے حیرت نہیں ہوتی سنو

میں تمہارے بعد پتھر ہوگئی


تری آنے کی خبر کا ہے کمال

آئینے سے بن رہی ہے ان دنوں


اپنے ہوش گنوا بیٹھی ہوں پھر سے آج

سوچ رہی ہوں تجھ کو ہر دم شہزادے


کسی کھنڈر میں مہکتے گلاب جیسی ہوں

میں کائنات کی آنکھوں میں خواب جیسی ہوں


لازمی ہے سزا غلاموں کو

شاہ زادی کے خواب دیکھتے ہیں


تم کیا جانو آنکھیں کتنا روتی ہیں

خوابوں کا جب محل گرانا پڑ جائے


بینائی تیرے رستوں کو تھام کے بیٹھی ہے

تیرے گھر کا دَر بھی وا ہے آنکھوں کے اُس پار


اُس کے لمس کی آسانی جب ملنے لگتی ہے

ہوجاتا ہے ہر رستہ دشوار سہیلی کیوں


بیٹیاں عکس اپنی ماؤں کا

بیٹیاں ہیں ثمر دعاؤں کا


ہمارے بعد ہمیں آسمان لکھ دوگے

ابھی تو جیتے ہیں لوگو! "ہماری بات سنو


سنہری شام کی کرنیں افق میں کھو گئی ہیں
ہماری نیندیں کہیں اور تھک کے سو گئی ہیں


ہم اپنی آنکھوں سے پوچھتے ہیں وہ اپنی آنکھوں سے دے رہے ہیں

وصال رت کی کمال شب میں ،سوال کوئی جواب کوئی


گر نہ جائیں جسم و جاں کی دیواریں

خواب تمھارا آنکھوں پہ کب دستک دے


دل تو کہتا ہے تو یہاں آئے

کیسے کہہ دوں کہ لوگ دیکھیں گے


رنگ سونے پہ جو سہاگہ ہے

حسن کو عشق ہو گیا ہے کیا


وہ جو دل سے اُترنے والی ہے

بات دل میں اُتر بھی سکتی ہے


جو کہنے کی پہلے کبھی ہمت نہ ہوئی تھی

وہ سب اسے کہہ دینا بھی آسان تھا کل شب


ہنستا ہی رہا پہلے تو سن کر وہ مرا حال

پر خواب میں اک شخص پریشان تھا کل شب


آنکھیں رستہ تکنے پر مامور ہوئی ہیں
دل سے کیسے یاد مٹائیں آپ بتائیں


آج پھر تم کو ہم نے دیکھا ہے

آج محشر بنی ہیں یہ آنکھیں