Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


فوزیہ رباب

بیٹیاں

بیٹیاں "

بیٹیاں زخم سہہ نہیں پاتیں

بیٹیاں درد کہہ نہیں پاتیں

بیٹیاں آنکھ کا ستارا ہیں

بیٹیاں درد میں سہارا ہیں

بیٹیوں کا بدل نہیں ہوتا

بیٹوں سا کنول نہیں ہوتا

خواب ہیں بیٹیوں کے صندل سے

ان کے جذبات بھی ہیں مخمل سے

بیٹیوں کو ہراس مت کرنا

ان کو ہر گز اداس مت کرنا

بیٹیاں نور ہیں نگاہوں کا

بیٹیاں باب ہیں پناہوں کا

باپ کا بھی یہ مان ہوتی ہیں

بیٹیاں ہیں سکون ماؤں کا

بیٹیاں دل کی صاف ہوتی ہیں

گویا کھلتا گلاب ہوتی ہیں

بیٹیاں عکس اپنی ماؤں کا

بیٹیاں ہیں ثمر دعاؤں کا

بیٹیوں کے ہیں موم جیسے دل

درد کی آنچ سے پگھلتے ہیں

بیٹیوں کو سزائیں مت دینا

ان کو غم کی قبائیں مت دینا

بیٹیاں چاہتوں کی پیاسی ہیں

یہ پرائے چمن کی باسی ہیں

مارنا مت جنم سے پہلے ہی

بوجھ ان کو کبھی سمجھنا مت

بیٹیاں بے وفا نہیں ہوتیں

یہ کبھی بھی خفا نہیں ہوتیں