Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

تعارف

عنبریں حسیب عنبر

عنبریں حسیب عنبر

اب اسیری کی یہ تدبیر ہوئی جاتی ہے

ایک خوشبو مری زنجیر ہوئی جاتی ہے

اس کی پرشوق نگاہوں کا عجب ہے یہ فسوں

خوش بیانی مری تصویر ہوئی جاتی ہے


اپنے انجام سے غافل نہیں ہونے والی

چاندنی، دھوپ میں شامل نہیں ہونے والی

تیری تُو جانے کہ خاموش ہے کیوں تیرا ضمیر

ہم سے تو مدحتِ قاتل نہیں ہونے والی


سب سے بچ کر تم نے ایک نظر دیکھا

اور یہاں جو دل دھڑکا ہے ، توبہ ہے

تم نے کہا تھا”آپ سے مل کر خوشی ہوئی

لیکن میں نے جو سمجھا ہے ، توبہ ہے


چراغ گھر میں جلا نہیں ہے

یہ رات کا مسئلہ نہیں ہے

یہ رات تم سے نہیں کٹے گی

یہ ہجر ہے ، رت جگا نہیں ہے


سب سے بچ کر تم نے ایک نظر دیکھا

اور یہاں جو دل دھڑکا ہے، توبہ ہے

تم نے پکارا نام کسی کا محفل میں

میں نے اپنا نام سنا ہے، توبہ ہے


اب اسیری کی یہ تدبیر ہوئی جاتی ہے

ایک خوشبو مری زنجیر ہوئی جاتی ہے

اک حسیں خواب کہ آنکھوں سے نکلتا ہی نہیں

ایک وحشت ہے کہ تعبیر ہوئی جاتی ہے


یہ شعلے آزمانا جانتے ہیں

سو ہم دامن بچانا جانتے ہیں

تعلق جو بھی رکھو سوچ لینا

کہ ہم رشتہ نبھانا جانتے ہیں


جز ترے کچھ بھی نہیں اور مقدر میرا

تو ہی ساحل ہے مرا، تو ہی سمندر میرا

تو نہیں ہے تو ادھوری سی ہے دنیا ساری

کوئی منظر مجھے لگتا نہیں منظر میرا


دفعتا اٹھ گئی ہیں نگاہیں مری

آج بیٹھے رہو روبرو دیر تک

تم نے کس کیفیت میں مخاطب کیا

کیف دیتا رہا لفظ تو دیر تک


کوئی شکوہ ہو، شکایت ہو مگر اپنا ہے

تپتے صحرا میں یہی ایک شجر اپنا ہے

بے گھری جن کا مقدر ہے انھیں دیکھ ذرا

اور پھر شکر بجا لا کہ یہ گھر اپنا ہے


لوگ امید مسیحائی کی رکھتے ہوں گے

زندگی! ہم تو کوئی زخم نیا مانگتے ہیں


کل وراثت یہی اجداد سے پائی میں نے

فکر میراث مری، علم ہے زیور میرا


تیرے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے
نہ کچھ خمار سے بڑھ کے نہ کچھ خمار سے کم


جز محبت یہ زندگی کیا ہے

گردشِ ماہ و سال ہے شاید


خاک اس دل پہ جو امید سے خالی ہو جائے

حیف اس آنکھ پہ جو صرف اندھیرا دیکھے


جاں سے گزر کے حق نے حقیقت بیان کی

باطل سمجھ رہا تھا بقا زندگی سے ہے


چاند، سورج بھی تمہیں، سارے نظارے تم ہو

ہم کو دنیا سے غرض کیا کہ ہمارے تم ہو


قدر یوسف کی زمانے کو بتائی میں نے

تم تو بیچ آئے اُسے مصر کے بازاروں میں


ہم تو عنبر یہ تصور بھی نہیں کر پاتے

کیا تعلق رہے گر صرف ضرورت رہ جائے


کاش یہ بات کوئی خضر کو سمجھا دیتا

منزلیں شوق سے ہیں، راہ دکھانے سے نہیں


مجھے طلب ہی نہیں مہرو ماہ کی اے دل

محبتوں سے مری زندگی منور ہے


جس نوازش سے عزم_ سفر ہے جواں

ان کے حق میں بھی عنبر دعا کیجیے


وہ مسیحا نہ بنا ہم نے بھی خواہش نہیں کی

اپنی شرطوں پہ جیے اس سے گزارش نہیں کی


سب سے بچ کر تم نے ایک نظر دیکھا

اور یہاں جو دل دھڑکا ہے، توبہ ہے


مجھ میں اب میں نہیں رہی باقی

میں نے چاہا ہے اس قدر تم کو


دیکھا نہیں کہ گھر کی ٹپکنے لگی ہے چھت

برسا جو ابر جھومنے گانے میں لگ گئے


میں نے لکھا ہے محبت کا ترانہ عنبر

جب بھی ایجاد ہوا ہے نیا ہتھیار کوئی


ظلم کو یاد کیوں نہیں رہتا
حق ہوا ہے بھلا کبھی خاموش


تیرے نام کی چوڑی پہنی، جاگ اٹھے میرے بھاگ

بھری کلائی کا مطلب، میں سمجھی آج سہاگ


سب سے بچ کر تم نے ایک نظر دیکھا

اور یہاں جو دل دھڑکا ہے توبہ ہے


اٹھا کے آواز قتل ہوتے تو بات بھی تھی

ستم تو یہ ہے کہ بے زبانی میں مر رہے ہیں


آواز بھی اونچی رہے، سر بھی ہو کشیدہ

حق مانگ رہے ہو کوئی فریاد نہیں ہے


پہلے کس درجہ خوف آتا تھا

اب میری آرزو ہے تنہائی


عجیب رنگوں سے مجھ کو سنوار دیتی ہے

کہ وہ نگاہ_ستائش نہیں سنگھار سے کم


ہمیں کب راس آ سکتی تھی دنیا
غنیمت ہے گزارا ہوگیا ہے


فیصلہ بچھڑنے کا کر لیا ہے جب تم نے

پھر مری تمنا کیا پھر مری اجازت کیوں


دنیا تو ہم سے ہاتھ ملانے کو آئی تھی

ہم نے ہی اعتبار دوبارہ نہیں کیا


عمر بھر کے سجدوں سے مل نہیں سکی جنت

خلد سے نکلنے کو اک گناہ کافی ہے


اڑ گئے سارے پرندے موسموں کی چاہ میں

انتظار ان کا مگر بوڑھے شجر کرتے رہے


محبت اور قربانی میں ہی تعمیر مضمر ہے

در و دیوار سے بن جائے گھر ایسا نہیں ہوتا


اے آسماں کس لیے اس درجہ برہمی

ہم نے تو تری سمت اشارا نہیں کیا


پیروی سے ممکن ہے کب رسائی منزل تک

نقش پا مٹانے کو گرد راہ کافی ہے


اس عارضی دنیا میں ہر بات ادھوری ہے

ہر جیت ہے لا حاصل ہر مات ادھوری ہے


ہم تو سنتے تھے کہ مل جاتے ہیں بچھڑے ہوئے لوگ

تو جو بچھڑا ہے تو کیا وقت نے گردش نہیں کی