ملا بھی زیست میں کیا رنج_ رہگزار سے کم
سو اپنا شوق_ سفر بھی نہیں غبار سے کم
ترے فراق میں دل کا عجیب عالم ہے
نہ کچھ خمار سے بڑھ کر، نہ کچھ خمار سے کم
وہ منتظر ہے یقیناً ہوائے صرصر کا
جو حبس ہو نہ سکا باد_ نو بہار سے کم
مری انا ہی سدا درمیاں رہی حائل
وگرنہ کچھ بھی نہیں میرے اختیار سے کم
عجیب رنگوں سے مجھ کو سنوار دیتی ہے
کہ وہ نگاہِ ستائش نہیں سنگھار سے کم