اصلی نام کنور اخلاق محمد خان اور تخلص شہریار تھا، ان کی پیدائش 16 جون 1936ء کو آنولہ ضلع بریلی میں ہوئی، شہر یار کے والد کنور ابو محمد خان پولیس انسپکٹر تھے اور ان کی تعیناتی ہردوئی میں تھی، شہریار کے آباء و اجداد راجپوت تھے اور پرتھوی راج کے دور میں ان کے بزرگوں نے اسلام قبول کیا تھا، ابتدائی تعلیم بینی گنج بریلی میں ہوئی جہاں ان کے بڑے بھائی کی تعیناتی تھی، یہاں انہوں نے درجہ چہارم تک کی تعلیم حاصل کی اور پھر ہردوئی آگئے، یہاں کے گورنمنٹ اسکول میں درجہ ششم میں داخلہ ہوا، 1948ء میں تعلیم کے سلسلے میں علی گڑھ آگئے، یہاں ان کا داخلہ سٹی اسکول میں ہوا جہاں ذریعہ تعلیم اردو تھا، انہوں نے یہاں تعلیم سے زیادہ کھیل کود میں دلچسپی لینی شروع کر دی، جب بڑے بھائی کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے نصیحت کی، جس سے متاثر ہو کر شہریار نے دوبارہ دلجمعی کے ساتھ پڑھائی شروع کی، 1954ء میں ہائی اسکول سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا، ان کے والد کی دلی تمنا تھی کہ خاندانی روایت کے مطابق شہریار بھی پولیس انسپکٹر بن کر عملی زندگی کا آغاز کریں، شہریار اس کے پیچھے کی ایک وجہ بیان کرتے ہیں کہ "میرے پردادا دلاور محمد خان ملٹری میں کمانڈنٹ تھے انھوں نے 1857ء میں ایک انگریز کی جان بچائی تھی جس سے خوش ہوکر اس نے ایک آرڈر پاس کیا تھا کہ ان کے گھرانے کے جو بھی لڑکے پولیس کی نوکری کرنا چاہیں، انہیں ڈائریکٹ تھانہ انچارج بنادیا جائے"، والد کے اصرار پر ان کا انکار غالب رہا جس کی وجہ سے والد صاحب بہت ناراض ہوئے، اسی ناراضگی کے سبب شہریار کو معاشی پریشانیاں بھی جھیلنی پڑیں، علی گڑھ آمد کے بعد ان کی ملاقات خلیل الرحمٰن اعظمی سے ہوئی جو کہ بعد میں گہری دوستی میں تبدیل ہوگئی، پریشانیوں کے ایام میں ان کا قیام و طعام خلیل اعظمی کے ہی گھر رہا، بہرحال 1956ء میں انہوں نے انٹرمیڈیٹ بھی سیکنڈ ڈویژن میں پاس کرلیا، لیکن 1958 میں گریجویشن میں اول آئے، 1960ء میں اردو سے ماسٹرز کیا اور فرسٹ پوزیشن کے ساتھ گولڈ میڈل حاصل کیا، ایم اے کے دوسرے سال علی گڑھ میگزین کے ایڈیٹر بھی رہے، اسی درمیان انجمن ترقی اردو کے "ہماری زبان" کے مدیر بھی رہے، 1961ء میں پی ایچ ڈی کے لئے "انیسویں صدی میں اردو تنقید کے رجحانات" کے عنوان کے تحت رجسٹریشن کرایا جس میں پروفیسر آل احمد سرور ان کے نگران تھے، پروفیسر صاحب نے ان کی بڑی رہنمائی فرمائی، 20 اکتوبر 1966ء میں شعبہ اردو میں بطور لکچرر تقرری ہوئی اور 1996 میں بحیثیت پروفیسر اس شعبہ سے ریٹائر ہوئے، 1979ء میں ٹیچر کنڈیڈیٹ کی حیثیت سے پروفیسر ثریا حسین کی چیرمینی میں مقالہ جمع کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی، شہریار کی پہلی غزل مشرب کراچی میں 1955ء میں شائع ہوئی اور1958ء سے باقاعدگی سے شعر کہنے لگے، خلیل الرحمٰن اعظمی کا شمار ترقی پسند شعراء میں کیا جاتا ہے، شہریار بھی انھیں کے نقش قدم پر چلے لیکن اپنی منفرد شناخت کے ساتھ .
شہریار ایک قادرالکلام شاعر، نثر نگار، نغمہ نگار اور معلم تھے، ان کا شمار بھی ترقی پسند شعراء کی اولین فہرست میں ہوتا ہے لیکن ان کی شاعری میں ترقی پسندانہ اثرات کے باوجود جدیدیت کا رجحان غالب ہے، حالانکہ ابتدائی شاعری روایتی موضوعات پر ہی مشتمل ہے جس میں واردات قلبی بھی ہیں اور حسن وعشق کی حرارت بھی ، لیکن لہجے میں سادگی ہے اور ایک خاص قسم کی معصومیت ہے، انہوں نے جدید غزل کو جدید ترین بنانے اور اسے عصری ہئیت سے روشناس کرانے میں اہم کردار ادا کیا، انھوں نے غزل کی قدیم روایت کے مثبت عناصر کی جدید ذہن کے مطابق نئے اسلوب، لہجہ اور انداز میں تشکیل نو کی اور جدید موضوعات کو تغزل کے ساتھ جس طرح اپنی غزلوں میں برتا وہ انہیں کا حصہ ہے، انہوں نے جدید غزل میں نئی تراکیب و استعارات استعمال کر کے صنف غزل کو نئی بلندی عطا کی، انہوں نے غزلوں میں نئے نئے تجربے کئے مگر شاعری کی دیرینہ روایات کا بھی پاس و لحاظ رکھا، انہوں نے کلاسیکی روایات کا بھی احترام کیا اور اس سے بھٹکے نہیں ، ان کے غزلوں میں حزنیہ کیفیت اور لہجے میں دھیما پن ہے اور یہی ان کے انفرادیت ہے، تغزل میں ان کا کلام زیادہ تر مترنم اور شیریں ہے، ان کی شاعری میں تازگی و پختگی ہے، ان کی غزلیں بنیادی طور پر خواب کے اردگرد گھومتی ہیں جس کو انہوں نے مثبت پناہ گاہ اور سہارے کے لئے استعمال کیا، انہوں نے حقیقت پسندانہ شاعری کی اور جو کچھ بھی محسوس کیا اس کو الفاظ کے پیکر میں تراش کر پیش کیا، ان کی شاعری تخلیقی توانائی اور فعالیت کے ساتھ مثبت اور تعمیری فکر واحساس کےساحرانہ اظہار کا خوبصورت پیراہن ہے، ان کی سادگی میں پرکاری اور طرح داری میں تہہ داری کا ہنر ان کو معاصرین میں ممتاز کرتا ہے، جدیدیت کی سہل پسندی، بے ساختگی اور عمومیت نے ان کو ممتاز اور نمایاں مقام عطا کیا، اس لحاظ سے شہریار عرصہ دراز تک جدیدیت کے علمبرداروں میں شمار کئے جائیں گے.
شہریار نظموں کے سچے شاعر ہیں انہوں نے انہیں احساسات و جذبات کی ترجمانی کی جو ان کے دل کو چھوتے اور جذبات کو متاثر کرتے ہیں، ان کی نظم نگاری میں تہذیبی اور معاشرتی صورتحال سے جو وابستگی ملتی ہے وہ دوسرے شعراء میں کم ہی ملتی ہے، پیکر تراشی، ماورائیت، انسانی رشتوں کے مختلف زاویے ان کے اسلوب میں نمایاں ہیں، ان کی نظموں میں موضوع کا تنوع، حکائی انداز، تمثیلی و علامتی پیرایہ اظہار، مناسب متضاد الفاظ، حزنیہ کیفیت اور لہجے میں نرمی و آہستگی ان کی شاعری کے نمایاں اوصاف ہیں، ان کے یہاں ذاتی دکھ کی ایک لہر دکھائی دیتی ہے، وہ اس دکھ کو محدود نہیں کرتے بلکہ اسے عام انسانوں کا دکھ بناکر پیش کر دیتے ہیں اور یہ ان کے قادر الکلام ہونے کا ثبوت ہے، انہوں نے اپنی نظموں میں مصرعوں کی ترتیب میں زیادہ تنوع اور غیر رسمیت کا مظاہرہ کیاہے مانوس اور غیر مانوس الفاظ کے استعمال کے ساتھ بعض جگہ نئی علامات اور غیر معمولی تراکیب کا استعمال کیا ہے، ان کی شاعری میں مساوات اور طبقاتی برابری کا درس ملتا ہے، ان کی شاعری میں برجستگی، سلاست و روانی پائی جاتی ہے، ان کی غزلوں اور نظموں میں ایک توانائی ہے ان کے یہاں مایوس کن رویے کے بجائے زندگی سے مقابلہ کرنے کی آہٹ ملتی ہے، انہوں نے اپنی غزلوں اور نظموں کے تعلق سے جدید اردو شاعری کو نئی پہچان دی. انہوں نے مختصر نظموں میں ایجاز کے فن کو جلا بخشی، کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ کہنے کا فن ان کے تخلیقی شعور کا غماز ہے، ان کی شاعری مسرتوں سے لبریز ایک ایسی زندگی کو تلاش کرتی ہے جو ہر انسان کا خواب ہے.
شہریار کی نثر میں بھی سادگی اور معروضیت ہے جس نے اردو میں ایک صحت مند اور غیر جانبدار مدلل انداز تحریر کو تروغ دیا ہے.
شہریار نے فلموں کے لئے بھی نغمے لکھے، اپنے دوست اور کلاس فیلو مظفر علی اور چوپڑا پروڈکشن کی فلموں کے لئے لکھے گئے ان کے نغموں نے کافی شہرت حاصل کی ان میں گمن، امراؤجان، فاصلے، زونی، انجمن، دامن وغیرہ قابل ذکر ہیں.
شہریار کو کئی ایوارڈز بھی ملے، ان میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، بہادر شاہ ظفر ایوارڈ، غالب انسٹی ٹیوٹ ایوارڈ، اترپردیش اردو اکادمی ایوارڈ ، میر اکیڈمی ایوارڈ، ساہتیہ منچ جالندھر، ادبی سنگم ایوارڈ، شرف الدین یحییٰ منیری ایوارڈ، فراق سمّان، اقبال سمّان،اور 2008ء میں انہیں بھارت کا اعلیٰ ترین شہری اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، اس کے علاوہ سنیل یونیورسٹی اوڈیسہ کی جانب سے گنگا دھر میموریل اعزاز بھی ملا اور حیدرآباد یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری بھی تفویض کی. ان کے مجموعہ "خواب کا دربند ہے" کا انگریزی ترجمہ The gateway of dream closed کے نام سے شائع ہوا.
خلیل الرحمٰن اعظمی کا سچا جانشین 13 فروری 2012ء کو کینسر جیسی مہلک بیماری کی وجہ سے اس دار فانی سے کوچ کر گیا، 14 فروری کو علی گڑھ یونیورسٹی کے منٹو قبرستان میں سپرد خاک ہوئے.
ان کے مجموعے مندرجہ ذیل ہیں :-
1. اسم اعظم
2. ساتواں در
3. ہجر کے موسم
4. خواب کا در بند ہے
5. نیند کی کرچیں
6. حاصل سیر جہاں
7. شام ہونے والی ہے
8. دھوپ کی دیواریں
9. قافلے یادوں کے
10.میرے حصے کی زمین
11. دھند کی روشنی
آ پ کی یاد آتی رہی رات بھر
چشم نم مسکراتی رہی رات بھر
رات بھر درد کی شمع جلتی رہی
غم کی لو تھر تھر اتی رہی رات بھر
ان آنکھوں کی مستی کے دیوانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
اک تم ہی نہیں تنہا الفت میں میری رسوا
اس شہر میں تم جیسے دیوانے ہزاروں ہیں
بھوک سے رشتہ ٹوٹ گیا تو ہم بے حس ہو جائیں گے
اب کے جب بھی قحط پڑے تو فصلیں پیدا مت کرنا
آغاز کیوں کیا تھا سفر ان خلاؤں کا
پچھتا رہے ہو سبز زمینوں کو چھوڑ کے
ہم خوش ہیں ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے
اجداد کہیں پیڑ بھی کچھ بو گئے ہوتے
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حس و بے جان سا کیوں ہے
گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے
اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے
کہنے کو ہر اِک بات کہی تیرے مُقابل
لیکن، وہ فسانہ جو مِرے دِل پہ رَقم ہے
تھوڑی سی جگہ مجھ کو بھی مِل جائے کہِیں پر
وحشت تِرے کوُچے میں، مِرے شہر سے کم ہے
میں اپنے جسم کی سرگوشیوں کو سنتا ہوں
ترے وصال کی ساعت نکلتی جاتی ہے
گھر میں یاد آتی تھی کل دشت کی وُسعت ہم کو
دشت میں آئے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
ترا خیال بھی تیری طرح ستمگر ہے
جہاں پہ چاہئے آنا، وہیں نہیں آتا
زخموں کو رفو کر لیں دل شاد کریں پھر سے
خوابوں کی کوئی دنیا آباد کریں پھر سے
اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری
یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہو گا
جاگتا ہوں میں ایک اکیلا، دنیا سوتی ہے
کتنی وحشت ہجر کی لمبی رات میں ہوتی ہے
آنکھوں کو سب کی نیند بھی دی خواب بھی دیے
ہم کو شمار کرتی رہی دشمنوں میں رات
نہ خوش گمان ہو اس پر تو اے دل سادہ
سبھی کو دیکھ کے وہ شخص مسکراتا ہے
سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا
یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا
یہ اک شجر کہ جس پہ نہ کانٹا نہ پھول ہے
سائے میں اس کے بیٹھ کے رونا فضول ہے
بلا رہا تھا کیا کوئی چلمنوں کے اس طرف
مِرے لئے بھی کیا کوئی اداس بے قرار ہے
آنکھ کی یہ ایک حسرت تھی کہ بس پوری ہوئی
آنسوؤں میں بھیگ جانے کی ہوس پوری ہوئی
آندھیاں آتی تھیں لیکن کبھی ایسا نہ ہوا
خوف کے مارے جدا شاخ سے پتا نہ ہوا
اب جی کے بہلنے کی ہے ایک یہی صورت
بیتی ہوئی کچھ باتیں ہم یاد کریں پھر سے
اس کو کسی کے واسطے بے تاب دیکھتے
ہم بھی کبھی یہ منظرِ نایاب دیکھتے
امید سے کم چشمِ خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
ترا خیال بھی تیری طرح ستم گر ہے
جہاں پہ چاہیئے آنا وہیں نہیں آتا
تو کہاں ہے تجھ سے اک نسبت تھی میری ذات کو
کب سے پلکوں پر اٹھائے پھر رہا ہوں رات کو
ان آنکھوں کی مستی کے دیوانے ہزاروں ہیں
ان آنکھوں سے وابستہ افسانے ہزاروں ہیں
جو چاہتی دنیا ہے وہ مجھ سے نہیں ہوگا
سمجھوتا کوئی خواب کے بدلے نہیں ہوگا
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا
کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا
شکوہ کوئی دریا کی روانی سے نہیں ہے
رشتہ ہی مری پیاس کا پانی سے نہیں ہے
عمر کا باقی سفر کرنا ہے اس شرط کے ساتھ
دھوپ دیکھیں تو اسے سائے سے تعبیر کریں
گردش وقت کا کتنا بڑا احساں ہے کہ آج
یہ زمیں چاند سے بہتر نظر آتی ہے ہمیں
نظر جو کوئی بھی تجھ سا حسیں نہیں آتا
کسی کو کیا مجھے خود بھی یقیں نہیں آتا
یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے
حد نگاہ تک جہاں غبار ہی غبار ہے
ہے آج یہ گلہ کہ اکیلا ہے شہریارؔ
ترسو گے کل ہجوم میں تنہائی کے لئے
اب تو لے دے کے یہی کام ہے ان آنکھوں کا
جن کو دیکھا نہیں ان خوابوں کی تعبیر کریں
چل چل کے تھک گیا ہے کہ منزل نہیں کوئی
کیوں وقت ایک موڑ پہ ٹھہرا ہوا سا ہے
ہم نے تو کوئی بات نکالی نہیں غم کی
وہ زود پشیمان پشیمان سا کیوں ہے
کہئے تو آسماں کو زمیں پر اتار لائیں
مشکل نہیں ہے کچھ بھی اگر ٹھان لیجئے
جانے وہ کون ہے، جو دامنِ دِل کھینچتا ہے
جب کبھی ہم نے اِرادہ کِیا مر جانے کا