خون میں لت پت ہو گئے سائے بھی اشجار کے
کتنے گہرے وار تھے خوشبو کی تلوار کے
اک لمبی چپ کے سوا بستی میں کیا رہ گیا
کب سے ہم پر بند ہیں دروازے اظہار کے
آؤ اٹھو کچھ کریں صحرا کی جانب چلیں
بیٹھے بیٹھے تھک گئے سائے میں دل دار کے
راستے سونے ہو گئے دیوانے گھر کو گئے
ظالم لمبی رات کی تاریکی سے ہار کے
بالکل بنزر ہو گئی دھرتی دل کے دشت کی
رخصت کب کے ہو گئے موسم سارے پیار کے