Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


شہریار

یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے

یہ قافلے یادوں کے کہیں کھو گئے ہوتے

اک پل بھی اگر بھول سے ہم سو گئے ہوتے

 

اے شہر تیرا نام ونشاں بھی نہیں ہوتا

جو حادثے ہونے تھے اگر ہو گئے ہوتے

 

ہر بار پلٹتے ہوئے گھر کو یہی سوچا

اے کاش کسی لمبے سفر کو گئے ہوتے

 

ہم خوش ہیں ہمیں دھوپ وراثت میں ملی ہے

اجداد کہیں پیڑ بھی کچھ بو گئے ہوتے

 

کس منھ سے کہیں تجھ سے سمندر کے ہیں حقدار

سیراب سرابوں سے بھی ہم ہو گئے ہوتے