Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


شہریار

کشتی جاں سے اُتر جانے کو جی چاہتا ہے

کشتی جاں سے اُتر جانے کو جی چاہتا ہے

اِن دِنوں یُوں ہے کہ، مرجانے کو جی چاہتا ہے

 

گھر میں یاد آتی تھی کل دشت کی وُسعت ہم کو

دشت میں آئے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

 

کوئی صُورت ہو، کہ پِھر آگ رگ و پے میں بہے

راکھ بننے کو، بِکھر جانے کو جی چاہتا ہے

 

کیسی مجبُوری و لاچاری ہے، اُس کُوچے میں

جا نہیں سکتا، مگر جانے کو جی چاہتا ہے

 

قُرب پِھر تیرا میسّر ہو، کہ اے راحتِ جاں !

آخری حد سے گُزرجانے کو جی چاہتا ہے