Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


شہریار

سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا

سبھی کو غم ہے سمندر کے خشک ہونے کا

کہ کھیل ختم ہوا کشتیاں ڈبونے کا

 

برہنہ جسم بگولوں کا قتل ہوتا رہا

خیال بھی نہیں آیا کسی کو رونے کا

 

صلہ کوئی نہیں پرچھائیوں کی پوجا کا

مآل کچھ نہیں خوابوں کی فصل بونے کا

 

بچھڑ کے تجھ سے مجھے یہ گمان ہوتا ہے

کہ میری آنکھیں ہیں پتھر کی جسم سونے کا

 

ہجوم دیکھتا ہوں جب تو کانپ اٹھتا ہوں

اگرچہ خوف نہیں اب کسی کے کھونے کا

 

گئے تھے لوگ تو دیوار قہقہہ کی طرف

مگر یہ شور مسلسل ہے کیسا رونے کا

 

مرے وجود پہ نفرت کی گرد جمتی رہی

ملا نہ وقت اسے آنسوؤں سے دھونے کا