Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


شہریار

جہاں پہ تیری کمی بھی نہ ہو سکے محسوس

جہاں پہ تیری کمی بھی نہ ہو سکے محسوس

تلاش ہی رہی آنکھوں کو ایسے منظر کی

 

ہمیں تو خود نہیں معلوم، کیا کسی کو بتائیں

کہ تجھ سے ملنے کی کوشش نہ کیوں بچھڑ کر کی

 

کہاں پہ دفن وہ پرچھائیاں کریں نیارو؟

جو تاب لا نہ سکیں روشنی کے خنجر کی

 

ہر ایک گُل کو ہے عشقِ سموم کا سودا

ہر ایک شاخ یہاں معتقد ہے صرصر کی

 

مگر یہ ذوقِ پرستش کہ اب بھی تشنہ ہے

جبیں کو چوم چکے ایک ایک پتّھر کی

 

جدھر اندھیرا ہے ، تنہائی ہے ، اداسی ہے

سفر کی ہم نے وہی سمت کیوں مقرّر کی