جہاں پہ تیری کمی بھی نہ ہو سکے محسوس
تلاش ہی رہی آنکھوں کو ایسے منظر کی
ہمیں تو خود نہیں معلوم، کیا کسی کو بتائیں
کہ تجھ سے ملنے کی کوشش نہ کیوں بچھڑ کر کی
کہاں پہ دفن وہ پرچھائیاں کریں نیارو؟
جو تاب لا نہ سکیں روشنی کے خنجر کی
ہر ایک گُل کو ہے عشقِ سموم کا سودا
ہر ایک شاخ یہاں معتقد ہے صرصر کی
مگر یہ ذوقِ پرستش کہ اب بھی تشنہ ہے
جبیں کو چوم چکے ایک ایک پتّھر کی
جدھر اندھیرا ہے ، تنہائی ہے ، اداسی ہے
سفر کی ہم نے وہی سمت کیوں مقرّر کی