Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


شہریار

مَیں چاہتا ہُوں نہ آئیں عذاب، آئیں گے

مَیں چاہتا ہُوں! نہ آئیں عذاب، آئیں گے
یہ جتنے لوگ ہیں، زیرِعتاب آئیں گے

اِس اِک خبر سے سراسیمہ ہیں سبھی، کہ یہاں !
نہ رات ہوگی، نہ آنکھوں میں خواب آئیں گے

ذرا سی دیر ہے خوشبُو و رنگ کا میلہ
خِزاں کی زد میں ابھی یہ گُلاب آئیں گے

ہر ایک موڑ پہ اِک حشر سا بَپا ہوگا
ہر ایک لمحہ، نئے اَنقلاب آئیں گے

پَلَٹ کے آئے نہیں کیوں جنُوں کی وادی سے
جِنھیں یہ زعم تھا، وہ کامیاب آئیں گے