کہیں ذرا سا اندھیرا بھی کل کی رات نہ تھا
گواہ کوئی مگر روشنی کے ساتھ نہ تھا
سب اپنے طور سے جینے کے مدعی تھے یہاں
پتہ کسی کو مگر رمزِ کائنات نہ تھا
کہاں سے کتنی اڑے اور کہاں پہ کتنی جمے
بدن کی ریت کو اندازۂ حیات نہ تھا
میرا وجود منور ہے آج بھی اس سے
وہ تیرے قرب کا لمحہ جسے ثبات نہ تھا
مجھے تو پھر بھی مقدر پہ رشک آتا ہے
میری تباہی میں ہرچند تیرا ہاتھ نہ تھا