Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


شہریار

کہیں ذرا سا اندھیرا بھی کل کی رات نہ تھا

کہیں ذرا سا اندھیرا بھی کل کی رات نہ تھا

گواہ کوئی مگر روشنی کے ساتھ نہ تھا

 

سب اپنے طور سے جینے کے مدعی تھے یہاں

پتہ کسی کو مگر رمزِ کائنات نہ تھا

 

کہاں سے کتنی اڑے اور کہاں پہ کتنی جمے

بدن کی ریت کو اندازۂ حیات نہ تھا

 

میرا وجود منور ہے آج بھی اس سے

وہ تیرے قرب کا لمحہ جسے ثبات نہ تھا

 

مجھے تو پھر بھی مقدر پہ رشک آتا ہے

میری تباہی میں ہرچند تیرا ہاتھ نہ تھا