Scholar Publishing House

اسکالر پبلشنگ ہاؤس

اسکالر پبلشنگ ہاؤس


شہریار

کٹے گا دیکھیئے دن جانے کس عذاب کے ساتھ

کٹے گا دیکھیئے دن جانے کس عذاب کے ساتھ

که آج دھوپ نہیں نکلی آفتاب کے ساتھ

 

تو پھر بتاؤ سمندر صدا کو کیوں سنتے

ہماری پیاس کا رشتہ تھا جب سراب کے ساتھ

 

بڑی عجیب مہک ساتھ لے کے آئی ہے

نسیم، رات بسر کی کسی گلاب کے ساتھ

 

فضا میں دور تلک مرحبا کے نعرے ہیں

گزر نے والے ہیں کچھ لوگ یاں سے خواب کے ساتھ

 

زمین تیری کشش کھینچتی رہی ہم کو

گئے ضرور تھے کچھ دور ماہتاب کے ساتھ