اصل نام بنواری لال اور شعلہ ؔ تخلص تھا ، 25 جولائی 1847ء کو سہارنپور میں پیدا ہوئے ، وہ ہندوؤں میں کائستھ فرقے کے بھٹناگر قوم سے تعلق رکھتے تھے ،ان کے جد امجد رائے نرمل داس کو قانون گوئی وراثت میں ملی تھی ، حصار ہریانہ میں ان کے خاندان کی بہت عزت وشہرت تھی ، ان کا خانوادہ علمی وادبی خانوادہ تھا ، ان کے والد موتی لال بھٹناگر ضلع سہارنپور میں ناظر عدالت کے پیشہ سے وابستہ تھے،لکھنؤ میں ان کے رشتہ کے بھائی منشی کرتا کشن وکیل جو کہ اسلام کی دولت سے سرفراز ہوگئے تھے کچھ دنوں ان کے پاس بھی قیام کیا ، منشی گھمنڈی لال کے مطابق ان کی شاعری کے نقطہ آغاز کے صحیح وقت کا پتہ تو نہیں چلتا لیکن عہد طفولیت ہی سے ان میں یہ رجحان پیدا ہو چلا تھا لیکن وہ اسے کسی پر ظاہر نہیں کرتے تھے ، وہ منشی بال مکند بےصبؔر کے ممتاز شاگردوں میں سے تھے ، 1873ء میں منشی بنواری لال شعلہ کو علی گڑھ میں محکمہ بندوبست میں ملازمت مل گئی تو وہیں مستقل سکونت اختیار کرلی ، یہاں انہوں نے وکالت کا امتحان پاس کیا اور وکالت بھی کرنے لگے ، علی گڑھ میں ہرگوپال مرزا تفؔتہ سے بھی فیض یابی کا موقع ملا ، انھیں کی وساطت سے مرزا غالؔب تک رسائی حاصل ہوئی ، مگر اکتساب فیض کے کچھ خاص مواقع نہ مل سکے ، یاد رہے منشی بال مکند بےصبؔر اور مرزا تفؔتہ غالب کے مشہور شاگردوں میں سے ہیں ، مرزا تفتؔہ اور غالب کے مابین خط وکتابت بھی موجو د ہے ، علی گڑھ میں منشی چھوٹے خان قیس ؔ سے ان کی معرکہ آرائی کافی مشہور ہے ، 1885ء میں علی گڑھ میں جب کائستھ سبھا کا قیام ہوا تو بنواری لال شعلہ نے باقاعدہ اس میں شرکت کی اور قوم کے نام نظم بھی پڑھی،بھارت دھرم مہا منڈل کے جلسہ میں مارچ 1888ء میں شرکت کی اور یہیں سے ان کے مذہبی رجحانات میں تبدیلی پیدا ہونا شروع ہوئی ، بھارت دھرم مہا منڈل کے ملک کے مختلف شہروں میں منعقدہونے والے پروگرامز میں ہر سال شرکت کرنے لگے ، وہ وہاں مسدس ست دھرم ، مسدس پتنی ورتا دھرم پڑھتے تھے ، وندراون(متھرا) میں بھارت دھرم مہا منڈل کے پروگرام میں شرکت کی تو وہاں انہوں نے اپنی طویل مثنوی “بزم بندرابن “ پڑھی ، وہاں ان کی ملاقات بھارت دھرم مہا منڈل کے صدر دیوان رام جس سی ایس آئی وزیر ریاست کپور تھلہ سے ہوئی ،وہ اپنے گھر پر بڑے ذوق وشوق سے رامائن کتھا کراتے تھے اور اس میں “مسدس رامائن” پڑھی جاتی تھی ،انہوں نے اپنی اہلیہ ثانی کی یاد گار کے طور پر ایک مندر " سری گوپیشور مندر " کی تعمیر کرائی جو آج بھی علی گڑھ میں موجود ہے ،1901ء میں محمڈن کالج علی گڑھ میں زبردست مشاعرہ ہوا جس میں مشہور زمانہ شعراء نے شرکت کی ،ان کو مشاعرے شروع ہونے سے قبل مدعو کیا گیاتھا لیکن طبیعت کی تبدیلی کے باعث اس کے لئے تیارنہ ہوسکے اس لئے بطور سامع کے شرکت کی ،اس مشاعرے میں منشی امیر اللہ تسلیم ؔ بھی شریک تھے ، منشی ان کو بہت عزیز تھے اور بحیثیت استاد شاعر بہت عزت واحترام بھی کرتے تھے، اختتام مشاعرہ کے بعد انہوں نے ان سے ملاقات کی ، دوسرے دن شہر میں منشی امیراللہ تسلؔیم کی آمد کے موقع پر مشاعرہ منعقد کیاگیا اور اس میں ان سے شرکت کا وعدہ لیاگیا ، اس مشاعرہ میں انہوں نے بھی غزل پڑھی، بنواری لال شعلہ ؔ کا دیوان “ارمغان شعلہ “ جب شائع ہوا تو وہ لندن تک پہونچ گیا ، کیونکہ اس میں “قصیدہ کلاک ٹاور “ بھی تھا جس کو سر چارلس ہاکس ٹوڈ کراسویتھ لفٹنٹ گورنر صوبہ جات مغربی وشمالی نے نہایت صفائی اور عمدگی سے چھپوایا تھا اور معززین حکام و رؤساء میں تقسیم کیا تھا ، ان کو پوئیٹ لاریٹ (ملک الشعراء) بھی بنانے کا بھی ذکر ہوا لیکن وہ پائہ تکمیل تک نہ پہونچ سکا۔
بنواری لال شعلہ زودگوشاعر تھے انہوں سبھی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی جس میں غزل ،نظم ، مسدس ، نوحہ ، قصیدہ ، مثنوی ، واسوخت وغیرہ شامل ہیں لیکن وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعرتھے ، عمر کے آخری دور میں مذہبی رجحانات کے غلبے کے سبب زیادہ توجہ نظم گوئی کی طرف رہی ، ان کی غزل گوئی میں معنی آفرینی ، معاملہ فہمی ، نازک خیالی پائی جاتی ہے ،انہوں نے اپنی غزلوں میں گردوپیش کے مسائل ،اپنے تجربات اور مشاہدات کو برتا ، ان کے کلام میں تصور ، تخیل ، ناصحانہ رنگ ، رندانہ مزاج ، ضرب المثل ، معرفت ، تسکین ، بےکسی ، موت وزیست کے موضوعات عام ہیں ، اسلام اور ویدک دھرم کی کتابوں کا ان کا مطالعہ کافی گہرا تھا شاعری میں عروض و قوافی میں زیادہ دخل نہ تھا لیکن موزوں اور چست شعر کہنے میں مہارت حاصل تھی ،ان کے کلام میں ان کے سبھی استادوں کی جھلک ملتی ہے ، مسدس غایت درجہ زورآور اور پر اثر ہے ، ان کی طویل مثنوی”بزم برندابن “ شہرہ آفاق ہے جس میں انہوں نے کرشن اور رادھا کے والہانہ عشق کو نظم کیا ہے ،مثنوی میں تلمیحات ،تشبیہات اور استعارات کو خوب خوب استعمال کیاہے ، وہ کہیں کہیں اپنے استاد بے صبؔر سے بھی بازی لے جاتے ہیں ،اس کے علاوہ رامائن ،مہاشیو وغیر ہ پر ان کی منظومات ہیں ،عمومی طور پر انہوں نے اپنوں کے غم میں نوحہ خوانی کی ہے ، انہوں نے فارسیت کے ساتھ ساتھ برج بھاشا، ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کا بھی بخوبی استعمال کیا ہے ، زبان صاف ،سادہ اور رواں ہے ، ان کی شاعری میں دبستان ِلکھنؤ کی نزاکت اور تکلف بھی ہے لیکن ان میں دبستانِ دہلی کا رنگ نمایاں ہے۔
بنواری لال شعلہ ؔ کا 6 اپریل 1903ء میں رام نومی کے دن حرکت قلب بند ہونے کے سبب انتقال ہوا ۔
مجموعہ کلام کی فہرست
1۔ بزم بندرابن
2۔کلیات شعلہ
جدا جو لخت جگر ہو کے خانماں سے ملا
بدن سے روح ملی جسم جان سے ملا
ملا ہے آکے عزیزانِ قوم سے یو ں تو
بچھڑ کے جیسے کہ یوسف تھا کارواں سے ملا
کیا دولت عشق ہے کہ جوڑی ہم نے
آنکھیں شب وروز ہیں نچوڑی ہم نے
گھر والوں سے کام ہے نہ گھر سے مطلب
جوڑی اک تجھ سے سب سے توڑی ہم نے
دامان قیامت !میرے ہاتھوں میں لپٹ جا
اے چرخ ستمگر! میرے نالوں سے الٹ جا
اے جان حزیں!جسم سے آنکھوں میں سمٹ جا
اے عمر! اگر باقی کچھ ،بیچ سے کٹ جا
نہ کفن ہے نہ لحد ہے نہ جنازہ نہ مزار
شمع کیا ماتم پروانہ کا سامان ہوگیا
پاؤں رستہ پہ لگے جب کہ بیاباں آیا
ہاتھ کام آئے جو ہاتھوں میں گریباں آیا
میں دیکھ لوں کہ نکلتے ہیں کس طرح باہر
وہ آبھی جائیں کہیں ایک بار آنکھوں میں
دل میں کچھ عشق صنم تل کے برابر ہی سہی
کفر اتنا بھی نہ ہو جس میں مسلماں کیسا
وفا نہ ہو سہی لطف انتظار تو ہے
ابھی سے مرتے ہیں ہم وعدہ جزا کیلئے
یہاں اور آرزو ہے وہاں اور آرزو
دل میرے کام کا ہے نہ میں دل کے کام کا
بھر بھر کے رنگ پیکر تصویر میں تیرے
منھ چومتا تھا خامۂ قدرت دوات کا
ناتوانی میں سخت جانی ہائے
ضعف بھی طاقت آزما نکلا
وہ حرف ہو ں کبھی مکرر نہ ہوسکا
وہ لفظ ہوں جو معنی میں اپنے نہاں رہا
یقین میں وہم ہوں عین الیقیں ہوں
نہیں میں ہاں ہوں اور ہاں میں نہیں ہوں
دشت میں ذرہ ہے اور ذرہ میں صحرا تو ہے
موج میں بحر ہے اور قطرہ میں دریا تو ہوں
خود نور محو جلوہ تنویر بن گیا
نقاش آپ اپنی ہی تصویر بن گیا
ہماری حال کی صورت ہے ہر دم روانی ہے
جسے سب وقت کہتے ہیں وہ چلتی زندگانی ہے
عنقا کی طرح گم ہو جو شہرت پسند ہے
پایا اسی نے نام جو بے نشا ں رہا
گور کچھ دور نہیں فکر مسافت کیا ہے
گھر بدل لینے کو دنیا سے سفر کہتے ہیں
کشمکش بعد فنا بھی نہ گئی دنیا کی
ایک کے ہاتھ سے چھوٹے تو پڑے چار کے ہاتھ
نہ جھگڑا مجھ کو خنجر سے نہ دعوی تیرے دامن پر
وہ بیکس ہوں کہ میرا خون رہا میری ہی گردن پر
کا ٹ سکتے ہیں گلا خود بھی نہ کیجئے ہمیں قتل
آپ کے ہاتھ میں اک بات یہ بھی نہ سہی
کون ہے وہ جو اٹھا دیتا ہے پردا تیرا
تیری آنکھیں ہی کیا کرتی ہیں شکوا تیرا
جس قدر رنج کو چھیڑا ہمیں راحت آئی
زخم جتنا کہ کریدا کئے لذت آئی
خنجر سنبھالئے پے وتسلیم خم ہیں ہم
گردن جواب لے کے اٹھے گی سلام کا
کہاں رکھیں گے لے جاکر لحد میں اتنے ساماں کو
فغاں کو ،بیکسی کو ،یاس کو ،حسرت کو ،حرماں کو