لبوں پہ جان مسیحا کے انتظار میں ہے
نہ دل ہی پہلو میں،مردہ کوئی مزار میں ہے
وہ سبزہ بالے کا پوشیدہ زلفِ یار میں ہے
عجب یہ ہے کہ زمرد دہانِ مار میں ہے
اڑایا کون سے محمل نشیں نے ٹھوکر سے
غبار قیس بھی شامل مرے غبار میں ہے
ادھر تو جان چلی اور وہ ادھر کھسکا
نہ بس میں یہ ہے ،نہ وہ اپنے اختیار میں ہے
تمہارے کشتہ نے تربت ہلا ہلا ڈالی
نہیں ہے مردہ یہ بجلی کوئی مزار میں ہے
اٹھا دوپٹہ کو سینہ سے دیکھ لیں تو ذرا
یہ کیا چھپا ہوا تیرے گلو کے ہار میں ہے
زمانہ ناقۂ لیلی نے کردیا پامال
ہزاروں پھرتے ہیں یاں قیس کس قطار میں ہے
عدو تو کیا ہے فلک کا پتہ نہیں چلتا
یہ آگ شعلہ ؔ مری آہ شعلہ یار میں ہے