یاد ایام کہ پردے میں تھا حسن جاوید
یاد ایام کہ خلوت میں تھی بزم توحید
لگ گئی قفل حقیقت کو محبت کی کلید
کھینچ لائی تجھے عشاق کی یاں حسرت دید
جلوہ حسن ِ ازل یوں سر بازار نہ تھا
بے بہا جنس کو گاہک کو سروکار نہ تھا